کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 591
1۔امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: "وحسن اللؤلؤی کذاب"اور حسن (بن زیاد)اللؤلؤی کذاب ہے۔ (تاریخ ابن معین ، روایۃ الدوری :1765، الجرح والتعدیل 3؍15،وسندہ صحیح الکامل لا بن عدی 2؍731،دوسرا نسخہ 3؍160، الضعفاء للعقیلی 1؍228اخبار القضاۃ 3؍189، وسندہ صحیح) 2۔امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کہا:" کذاب کو فی متروک الحدیث " (تاریخ بغداد7؍317 وسندہ صحیح) 3۔یعقوب بن سفیان الفارسی نے کہا:"الحسن اللؤلؤی کذاب" (المعرفۃ والتاریخ 3؍56،تاریخ بغداد 7؍317و سندہ صحیح) 4۔ امام نسائی نے کہا:"والحسن بن زیاد اللؤلؤی کذاب خبیث" (الطبقات للنسائی آخر کتاب الضعفاء ،ص266، دوسرا نسخہ ص310) 5۔امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ سے حسن بن زیاد اللؤلؤی کے بارے میں پوچھا گیا کہ آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟انھوں نے فرمایا:"اومسلم ھو؟"کیا وہ مسلمان ہے؟(الضعفاء للعقیلی 1؍227 وسندہ صحیح دوسرا نسخہ 1؍246تاریخ بغداد 7؍316وسندہ صحیح اخبارالقضاۃ لمحمد بن خلف بن حبان وکیع 3؍189، وسندہ صحیح ) 6۔امام محمد بن رافع النیسا بوری رحمہ اللہ نے فرمایا: حسن بن زیاد اللؤ لؤی امام سے پہلے سر اٹھاتا تھا اور امام سے پہلے سجدہ کرتا تھا۔ الخ (الضعفاء للعقیلی 1؍227 ،228،وسندہ صحیح دوسرا نسخہ تاریخ بغداد 7؍316، وسندہ صحیح اخبارالقضاۃ 3؍189، وسندہ صحیح ) 7۔حسن بن علی الحلوانی رحمہ اللہ نے فرمایا:میں نے لؤلؤی کو دیکھا ،اس نے سجدے میں ایک لڑکے کا بوسہ لیا تھا ۔(تاریخ بغداد7؍316و سندہ صحیح، یاد رہے کہ تاریخ بغداد میں کاتب کی غلطی سے حسن بن علی الحلوانی رحمہ اللہ کے بجائے حسن بن زیاد الحلوانی رحمہ اللہ چھپ گیا ہے۔) 8۔یعلیٰ بن عبید رحمہ اللہ نے کہا: "اتق اللؤلؤی"لولؤی سے بچو۔ (الضعفاء للعقیلی 1؍227 ،وسندہ صحیح دوسرا نسخہ 1؍246تاریخ بغداد 7؍316، وسندہ صحیح ) 9۔ابو حاتم الرازی نے کہا: " ضعیف الحدیث ،لیس بثقۃ ولا مامون" وہ حدیث