کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 59
حضرت نے فرمایا:’’پکاکافر تھا‘‘اور اس کے بعد مسکرا کرارشاد فرمایا کہ:’’ضامن علی جلال آبادی تو توحید ہی میں غرق تھے۔‘‘ (تذکرۃ الرشید جلد2 ص242)
عبارت مذکورہ میں حضرت سے مراد رشید احمد گنگوہی اور خلیل احمد سے مراد بزل المجہود،براہین قاطعہ اور المہند کے مصنف خلیل احمد انبیٹھوی سہارنپوری ہیں۔
ضامن علی جلال آبادی کون تھے اور کس توحید میں غرق تھے؟ اس کے بارے میں گنگوہی’’صاحب ارشادفرماتے‘‘ ہیں:’’ضامن علی جلال آبادی کی سہارنپور میں بہت رنڈیاں مرید تھیں ایکبار یہ سہارنپور میں کسی رنڈی کے مکان پر ٹھیرے ہوئے تھے سب مریدنیاں اپنے میاں صاحب کی زیارت کے لیے حاضر ہوئیں مگر ایک رنڈی نہیں آئی میاں صاحب بولے کہ فلانی کیوں نہیں آئی رنڈیوں نے جواب دیا:’’میاں صاحب ہم نے اُس سے بتہیرا کہا کہ چل میاں صاحب کی زیارت کو اُس نے کہا میں بہت گناہگار ہوں اور بہت روسیاہ ہوں میاں صاحب کو کیا منہ دکھاؤں میں زیارت کے قابل نہیں‘‘میاں صاحب نے کہانہیں جی تم اُسے ہمارے پاس ضرور لانا چنانچہ رنڈیاں اُسے لیکر آئیں جب وہ سامنے آئی تو میاں صاحب نے پوچھا’’بی تم کیوں نہیں آئی تھیں؟‘‘اُس نے کہا حضرت روسیاہی کی وجہ سے زیارت کو آتی ہوئی شرماتی ہوں۔میاں صاحب بولے’’بی تم شرماتی کیوں ہوکرنے والاکون اور کرانے والا کون وہ تو وہی ہے‘‘رنڈی یہ سن کر آگ ہوگئی اور خفا ہوکر کہا لاحول ولا قوۃ اگرچہ میں روسیاہ وگناہگار ہوں مگر ایسے پیر کے مُنہ پر پیشاب بھی نہیں کرتی۔‘‘ میاں صاحب تو شرمندہ ہوکر سرنگوں رہ گئے اور وہ اُٹھ کر چلدی۔‘‘ (تذکرۃ الرشید ج2 ص242)
اس طویل عبارت اور قصے سے معلوم ہوا کہ گنگوہی صاحب کے نزدیک توحید میں غرق پیر کا یہ عقیدہ تھا کہ زنا کرنے والا اور کرانے والا وہی یعنی خدا ہے۔معاذ اللّٰه ثم معاذ اللّٰہ۔(نعوذباللہ)
اللہ کی قسم!وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والے وجودیوں کی ایسی عبارات نقل کرنے سے دل ڈرتا اور قلم کانپتا ہے لیکن صرف احقاق حق اور ابطال باطل کے پیش نظر یہ حوالے پیش کیے جاتے ہیں اور صرف عام مسلمانوں کو ان کااصلی چہرہ اور باطنی عقیدہ دکھانا مقصود ہے۔