کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 588
پکڑتے ہیں۔‘‘ (ترک رفع یدین ، مطبوعہ جون 2004ءص423،424) نیز محارب بن دثارکو متکلم فیہ قراردے کر میزان الاعتدال سے جرح نقل کرنے کے بعد نوری صاحب لکھتے ہیں: ’’اب آپ خود غور کریں کیا ایسے شخص کی روایت حجت ہو سکتی ہےجو حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ اور حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا گستاخ ہو۔‘‘ (ترک رفع یدین ص440) حالانکہ اسی کتاب میں نوری صاحب محارب بن دثار کی اسی روایت سے ایک استدلال کرتے ہوئے خود لکھتے ہیں: ’’حضرت محارب بن دثار جو کہ کوفہ کے قاضی تھے اور صاحب علم و فضل تھے۔‘‘ (ترک رفع یدین ص256) ان سے کوئی پوچھے کہ ایک ہی راوی کی کہیں زبردست تعریف اور کہیں شدید جرح آپ کیوں کرتے ہیں؟ 8۔ایک روایت میں آیا ہے کہ (امام)ابو عبید نے فرمایا:میں نے محمد بن الحسن سے زیادہ قرآن کا کوئی بڑا عالم نہیں دیکھا۔اس کی سند نوری صاحب نے تاریخ بغداد (2؍175)اور مناقب ابی حنیفہ واصحابہ للصیمری(ص123) سے پیش کی ہے جس میں احمد بن محمد بن الصلت بن مغلس الحمانی عرف ابن عطیہ ہے۔ ابن عطیہ مذکور کے بارے میں ذہبی نے کہا:"وضاع"وہ جھوٹی روایات گھڑنے والا ہے۔(دیوان الضعفاء 1؍29ت50) اور فرمایا:وہ ہلاک کرنے والا ہے۔(میزان الاعتدال 1؍105ت410) امام دارقطنی اور ابن ابی الفوارس نے کہا: وہ حدیث گھڑتا تھا۔ ابن عدی نے کہا: میں نے جھوٹے لوگوں میں اتنا بے شرم کوئی نہیں دیکھا۔ ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا:پس میں نے جان لیا کہ وہ حدیث گھڑتا ہے۔ دیکھئے لسان المیزان (ج1ص270،271)