کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 587
اس نے جواب دیا کہ روس کے ایک مکتبہ سے اس کو نقل کیا گیا تھا اور وہ مکتبہ لڑائی میں جل گیا ہے، پھر حمیری نے اس سے مطالبہ یہ کیا کہ اس جزء کا باقی حصہ کہاں ہے مجھے وہ بھی بھیجو مگرحمیری کی اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ایک طرف تو یہ بات ہے جب کہ اس نسخہ کے آخر میں لکھا ہے کہ اس کو(933م) میں بغداد میں لکھا گیا ۔ بہر حال بہت سے ایسے شواہد و دلائل ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے یہ جزء من گھڑت بناوٹی اور خانہ ساز ہے اور ’’مصنف عبدالرزاق ‘‘کے ساتھ اس جزءکا کوئی تعلق نہیں ہے۔واضح رہے کہ حمیری کو یہ جزء ہندوستان کے ایک محمد امین برکاتی قادری نے لا کر دیا تھا۔(احناف کی چند کتب پر ایک نظر ص45) 6۔جب امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے شیبانی مذکور پر جرح کی تو نوری صاحب نے انھیں متشدد و متعنت قراردیا ۔دیکھئے تسوید ص44 اور جب ابن معین سے مرضی والی روایت آئی تو نوری صاحب نے علانیہ لکھا:’’امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ حدیث وقفہ ونقد الرجال کی مسلم شخصیت ہیں۔‘‘ (تسویدص72) ایک ہی امام کی بات اگر مرضی کے خلاف ہوتو متشدد اور متعنت کا فتوی اور اگر مرضی کے مطابق ہوتو مسلم شخصیت قرار دے کر تعریف کرنا وادیٔ تعارض و تنا قض میں غرق ہونے کی دلیل ہے۔ 7۔ایک تابعی محارب بن دثار رحمہ اللہ جب رفع یدین کرنے کی ایک حدیث کی ایک سند میں آئے تو نوری صاحب نے امام بخاری رحمہ اللہ کارد کرتے ہوئے لکھا : ’’جس کی سند میں محارب بن دثارہے۔جس کے متعلق امام ابن سعد نے کہا کہ "لا يحتجون به"کہ محدثین اس کے ساتھ دلیل نہیں پکڑتے۔ پھر یہ شخص حضرت سیدنا عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے متعلق اس کے نظر یات درست نہیں تھے۔ ان مقدس حضرات کے ایمان کی گواہی یہ شخص نہیں دیتا تھا۔ تعجب ہے ایسے لوگوں سے امام رفع یدین پر دلیل