کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 586
دیکھئے ’’جعلی جزء کی کہانی اور علمائے ربانی‘‘ (ص22تا 27،اور ص29تا 33) لہٰذا نوری صاحب کا یہ کہنا کہ’’صرف اس لیے انکار کر دیا ہے۔۔۔۔‘‘ جھوٹ ہے۔ فائدہ: اس جعلی جزء کے بارے میں مولانا عبدالرؤف بن عبدالمنان بن حکیم محمد اشرف سندھو حفظہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی) نے کہا:’’یہ مکمل جزء جس میں کل چالیس أحادیث ہیں محل نظر ہے بلکہ من گھڑت اور بے اصل ہے اس کے بارے میں عربی زبان میں بہت تفصیل سے لکھا جا چکا ہے۔ اسی طرح’’محدث‘‘اور’’الاعتصام ‘‘وغیرہ میں بھی اس جزء کے رد میں مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ جب اس جزء کے بارے میں شور مچا تو حمیری نے اس کی توثیق کے لیے قلمی نسخہ ’’مرکز جمعۃ الماجد للثقافۃ والتراث ‘‘بھیجا جو کہ دوبئی میں قلمی نسخوں کا بہت بڑا مر کز ہے اس مرکز میں بحیثیت "مدقق المخطوطات"قلمی نسخوں کی جانچ پڑتال کا، کام کرنے والے ہمارے فاضل دوست شیخ شہاب الدین بن بہادر جنگ نے بتایا کہ جب ہم نے اس نسخہ کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ جعلی نسخہ ہے اور اس کی کوئی اصل نہیں ہے، لہٰذا مرکز کی طرف سے دلائل و شواہد پر مبنی ایک رپورٹ تیار کر کے حمیری کو بھیج دی کہ یہ جعلی نسخہ ہے۔ شیخ محمد زیاد بن عمر نے"شبکۃ سحاب السلفیۃ " [1]میں اس مکذوب اور مصنوعی جزء پر اپنے رد میں ذکر کیا ہے[2] کہ شیخ ادیب کمدانی نے۔ جو کہ عیسی حمیری کی ادارت میں کام کر چکےہیں۔ [3]مجھے ٹیلی فون پر دوران گفتگو بتایا کی حمیری نے مجھے جب یہ مخطوط دکھایا تو میں نے دیکھ کر کہا کہ یہ من گھڑت ہے اور ان سے کہا کہ جس شخص نے آپ کو یہ مخطوط (قلمی نسخہ )لا کر دیا ہے اسے پوچھیں کہ جس اصل قلمی نسخے سے اس کو نقل کیا گیا ہے وہ کہاں ہے تو
[1] ۔یہ انٹرنیٹ پر ایک روم کا نام ہے۔ [2] ۔ان کا رد اب کتابی شکل میں بھی " مجموع فی کشف حقیقۃ الجزء المفقود(المزعوم) من مصنف عبد الرزاق "کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ [3] ۔یہ حمیری دوبئی اوقاف کے مدیررہ چکے ہیں۔