کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 584
عرض ہے کہ حاکم اور ہیثمی کے حوالے جمہور محدثین اور کبارعلماء مثلاً امام احمد ، امام یحییٰ بن معین اور امام افلاس وغیرہم کے مقابلے میں کس طرح پیش ہو سکتے ہیں؟نوری بریلوی صاحب اپنی تسویداور ترک رفع یدین دونوں کتابوں کی روسے اسماء الرجال اور علم حدیث سے سراسرناواقف ، کذب وافتراء کے مرتکب اور وادیٔ تعارض و تناقض میں غوطہ زن ہیں جس کی فی الحال دس (10) مثالیں پیش خدمت ہیں:
1۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی شیبانی پر ایک جرح کے راوی احمد بن سعد بن ابی مریم المصری ہیں جو 253ھ میں فوت ہوئے اور ثقہ و صدوق راوی تھے۔ ان کے بارے میں نوری صاحب لکھتے ہیں:’’ سنن الدارقطنی ج3ص5پر امام دارقطنی نے اس راوی کو ضعیف قراردیا ہے۔‘‘ (تسویدص50)
عرض ہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے فرمایا: "وابوبكر بن ابي مريم ضعيف"(سنن دار قطنی رحمہ اللہ ج3ص4ح2777)
نیز دیکھئے موسوعۃ اقوال الدارقطنی (2؍739ت4015)
ابو بکر بن ابی مریم راوی اور ہے اور احمد بن سعد بن ابی مریم اور ہیں۔ دونوں کو ایک قراردینا نوری صاحب کی بہت بڑی جہالت ہے۔ابو بکر بن ابی مریم الغسانی الشامی156ھ میں فوت ہوا تھا اور علی بن احمد بن سلیمان المصری 227ھ میں پیدا ہوئے تھے۔ (دیکھئے النبلاء 14؍496)
کیا وہ اپنی پیدائش سے بہت عرصہ پہلے فوت ہونے والے کے پاس پڑھنے کے لیے عالم برزخ میں تشریف لے گئے تھے؟ جس شخص کو اسماء الرجال کی الف باء کا پتا نہیں وہ کس زعم اور بل بوتے پر بڑی بڑی کتابیں اور درود لکھ رہا ہے؟
کیا بریلویت میں کوئی بھی اسے سمجھانے والا نہیں کہ یہ کام چھوڑو اور کوئی دوسرا دھندا کرو جسے تم جانتے ہو؟!
2۔ صحیحین و سنن اربعہ کے راوی اور مشہور امام ابو حفص عمرو بن علی بن بحر بن کنیز الصیر فی الفلاس رحمہ اللہ (متوفی229ھ)کے بارے میں نوری صاحب نے لکھا ہے: