کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 582
قرار دیا ہے۔ذہبی عصر شیخ عبد الرحمٰن بن یحییٰ المعلمی الیمانی رحمہ اللہ نے ابن حبان کی توثیق کے پانچ درجے مقرر کیے:
1۔جنھیں وہ صراحتاً مستقیم الحدیث اور متقن وغیرہ کہتے تھے۔
2۔وہ راوی جو ان کے اساتذہ میں سے تھے جن کی مجالس میں ابن حبان رحمہ اللہ بیٹھتے تھے۔
3۔کثرت حدیث کی وجہ سے مشہور راوی تھے۔
4۔ابن حبان رحمہ اللہ کے کلام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس راوی کو اچھی طرح جانتے تھے۔
5۔جو ان چاروں اقسام کے علاوہ (مثلاً مجہول و مستور)تھے۔
دیکھئے التنکیل (ج1ص437،438ت199)
اس سے معلوم ہوا کہ مجہول اور مستور راویوں کی توثیق میں امام ابن حبان متساہل تھے، لہٰذا ایسے مقام پر اگر وہ منفرد ہوں تو ان کی توثیق مقبول نہیں ہے۔
بعض ثقہ و صدوق راویوں پر امام ابن حبان کی جرح تشدد پر مبنی قراردے کر رد کر دی گئی تھی۔
خلاصۃ التحقیق:
حاکم ، ترمذی اور ابن حبان توثیق و تصحیح میں متساہل تھے، لہٰذا جس روایت کی تصحیح یا راوی کی توثیق میں ان کا تفرد ہو تو یہ مقبول نہیں ہے لیکن جس راوی کی توثیق پر دو یا زیادہ جمع ہوں اور مقابلے میں جمہور کی صریح جرح نہ ہو تو ایسا راوی صدوق حسن الحدیث ہوتا ہے۔
فائدہ: ہمارے نزدیک بعض محدثین کو متساہل یا متشدد وغیرہ قرار دینے کے چکر سے یہ بہتر ہے کہ ہر راوی کے بارے میں تعارض اور عدم تطبیق کی صورت میں ہمیشہ جمہور محدثین کو ترجیح دی جائے۔ اس طرح نہ تو کوئی تعارض واقع ہوتا ہے اور نہ اسماء الرجال کا علم بازیچۂ اطفال بنتا ہے۔ وما علینا الا البلاغ (10؍جنوری 2009ء)(الحدیث:59)