کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 58
اور اتحاد ظاہر ہے یعنی ان لوگوں کے نزدیک بندہ خدا اور خدا بندہ ہے۔اب آپ کے سامنے وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والوں کی دس عبارتیں پیش خدمت ہیں جن سے درج بالا نتیجے کی تصدیق ہوتی ہے:
1۔تھانہ بھون کے حاجی امداداللہ ولد حافظ محمدامین ولد شیخ بڈھا تھانوی عرف مہاجر مکی نے لکھا ہے:’’اور اس کے بعد اس کو ہو،ہوکے ذکر میں اسقدر منہمک ہوجانا چاہیے کہ خود مذکور یعنی(اللہ) ہوجائے اور فنا درفنا کے یہی معنی ہیں اس حالت کے حاصل ہوجانے پر وہ سراپا نور ہوجائے گا۔‘‘ (کلیات امدادیہ ص18 ،ضیاء القلوب)
تنبیہ: بریکٹ میں اللہ کا لفظ اسی طرح کلیات امدادیہ میں لکھا ہوا ہے۔!
2۔حاجی امداد اللہ صاحب ایک آیت:
"وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ "(الزاریات:21) کا غلط ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’خدا تم میں ہے کیا تم نہیں دیکھتے ہو۔‘‘ (کلیات امدادیہ ص31،ضیاء القلوب)
تنبیہ:آیت مذکورہ کا ترجمہ کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ الدہلوی لکھتے ہیں:
"ودرذات شمانشا نہاست۔۔۔۔۔آیا نمی نگرید" (ترجمہ شاہ ولی اللہ ص627)
یعنی اور تمہاری ذات میں نشانیاں ہیں کیا تم نہیں دیکھتے؟
شاہ ولی اللہ کے ترجمے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس آیت سے پہلی آیت میں آیات یعنی نشانیوں کا لفظ آیا ہے۔
3۔حاجی امداد اللہ تھانہ بھونوی صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’اس مرتبہ میں خدا کا خلیفہ ہوکر لوگوں کو اس تک پہنچاتا ہے اور ظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا ہوجاتا ہے اس مقام کو برزخ البرازخ کہتے ہیں اور اس میں وجوب وامکان مساوی ہیں کسی کو کسی پر غلبہ نہیں۔‘‘(کلیات امدادیہ ص35،36 ضیاء القلوب)
4۔عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی لکھتے ہیں:"ایک روز حضرت مولانا خلیل احمد صاحب زید مجدہ نے دریافت کیاکہ حضرت یہ حافظ لطافت علی عرف حافظ مینڈھو شیخ پوری کیسے شخص تھے۔