کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 579
پس اس وجہ سے ترمذی کی تصحیح پر علماء اعتماد نہیں کرتے۔
(میزان الاعتدال 3؍407ترجمہ کثیر بن عبد اللہ العوفی)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے مزید کہا: "فلا يُغتَرّ بتحسين الترمذي. فعند المحاقَقَةِ غالبُها ضعاف"
پس ترمذی کی تحسین سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے کیونکہ محققین کے نزدیک ایسی غالب(عام ،اکثر)روایتیں ضعیف ہیں۔(میزان الاعتدال 4؍416ترجمۃ یحییٰ بن یمان)
امام ترمذی رحمہ اللہ کو متساہل قراردینے میں ذہبی کے بعد عام علماء انھی کے نقش قدم پر چلے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ متساہل تھے۔
3۔حافظ محمد بن حبان ابو حاتم البستی رحمہ اللہ (متوفی354ھ)کے بارے میں محدثین کرام کے درمیان اختلاف تھا۔
ابو الفضل احمد بن علی بن عمرو السلیمانی ، یحییٰ بن عمار ، ابو اسماعیل الہروی، ابو علی النیسابوری ، محمد بن طاہر المقدسی اور عبدالصمد بن محمد بن محمد بن صالح (؟)نے ان پر جرح کی بلکہ سلیمانی نے انھیں کذابین میں شمار کر کے ابو حاتم سہل بن السر الحافظ سے نقل کیا:
"لاتكتب عنه فانه كذاب" اس سے نہ لکھو کیونکہ وہ کذاب ہے۔
(معجم البلدان لیاقوت الحموی 1؍419)
ابو حاتم سہل بن السری بن الخضر الخداء البخاری الحافظ کی صریح تو ثیق کہیں نہیں ملی اور ثقہ محدث سلیمانی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی لکھا :
"رأيت للسليماني كتابا فيه حط على كبار ، فلا يسمع منه ما شذ فيه"
میں نے سلیمانی کی کتاب دیکھی ہے جس میں اکابر پر جرح ہے، لہٰذا ان کی شاذبات کو نہ سنا جائے۔(سیراعلام النبلاء17؍202)
بعض کی اس جرح کے مقابلے میں جمہور کی توثیق درج ذیل ہے:
1۔خطیب بغدادی نے حافظ ابن حبان رحمہ اللہ کے بارے میں کہا:
"كان ثقة ثبتا فاضلا فهما " اور آپ ثقہ ثبت فاضل سمجھدار تھے۔
(تاریخ دمشق لا بن عساکر 55؍189، وسندہ صحیح)