کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 575
"حديث الطبراني بسنده عن سفينة رضي اللّٰه عنه.....الخ" (المعجم الکبیر7؍82ح6437) اس کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے: اول:طبرانی کے استاذ عبید العجلی کی توثیق نامعلوم ہے۔ دوم:سلیمان بن قرم ضعیف ہے۔ جو لوگ جمع تفریق کر کے حدیث کو حسن لغیرہ بنا لیتے ہیں ان کے اصول سے بھی حدیث الطیرحسن بنتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنے جوابات میں ترمذی والی روایت کو"وھوحدیث حسن"قراردیا ہے۔(دیکھئے "اجوبۃ الحافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ عن احادیث المصابیح "المطبوع مع المشکوۃ تخریج الالبانی3؍179،الطبعۃ الثانیہ 1405ھ) تنبیہ: حدیث الطیر کی تصحیح پر ایک دیوبندی فخر الدین الغلانی نے عربی زبان میں"نیل الخیربحدیث الطیر "نامی کتاب لکھی ہے جو ہمارے پاس موجود ہے۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن طاہر کا حدیث الطیر کی وجہ سے حاکم نیشاپوری پر اعتراض مردودہے۔ 3۔روایت ہے کہ شیخ الاسلام ابو اسماعیل عبد اللہ بن محمد الہروی رحمہ اللہ نے کہا: ابو عبد اللہ الحاکم حدیث میں امام اور ر افضی خبیث ہے۔(لسان المیزان 5؍233،دوسرا نسخہ 6؍251) یہ قول تین وجہ سے مردود ہے: اول:باسند صحیح ابن طاہر سے مروی نہیں ہے۔ دوم:حافظ ذہبی نے اسے رد کر دیا ہے۔ دیکھئے میزان الاعتدال (3؍608) سوم:یہ قول جمہور کی توثیق کے خلاف ہے۔ 4۔بعض علماء نے حاکم کی تصحیح فی المستدرک پر کلام کیا ہے جس کا ان کی عدالت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حاکم کے بارے میں ابو عبد الرحمٰن السلمیٰ (ضعیف)کی روایت بھی مردود ہے۔ اس جرح کے مقابلے میں جمہور کی توثیق کے بعض حوالے درج ذیل ہیں: