کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 573
اول:حاکم کی وفات کے بعد ابن طاہر المقدسی448ھ میں پیدا ہوئے تھے، لہٰذا ان کی حاکم سے بے سند نقل مردود ہے۔
دوم:حدیث الطیر کی بہت سی سندوں میں سے تاریخ دمشق لا بن عساکر(45؍192)میں امام دارقطنی والی روایت حسن لذاتہ ہے۔
اس روایت کی مختصر تحقیق درج ذیل ہے:
1۔ابن عساکر کے استاذابو غالب بن البناء ثقہ تھے۔دیکھئے سیرا علام النبلاء (19؍603)
2۔ابن البناء کے استاذابو الحسین بن الآبنوسی ثقہ تھے۔ دیکھئے النبلاء (17؍85)
3۔ابن الآبنوسی کے استاذ امام دارقطنی رحمہ اللہ مشہور ثقہ امام تھے۔
4۔امام دارقطنی کے استاذ محمد بن مخلد بن حفص الدوری ثقہ تھے۔
دیکھئے تاریخ بغداد (3؍311ت 1406)
5۔محمد بن مخلد کے استاذ حاتم بن اللیث بن الحارث الجوھری ثقہ تھے۔
دیکھئے تاریخ بغداد (8؍245ت 4346)
6۔حاتم بن اللیث کے استاذ عبید اللہ بن موسیٰ بن باذام العبسی الکوفی صحیحین کے راوی اور ثقہ و صدوق تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا:"ثقہ کان یتشیع "وہ ثقہ تھے(اور) تشیع کے قائل تھے۔(تقریب التہذیب:4345)
ثقہ و صدوق عند الجمہور راوی پر تشیع وغیرہ کی جرح سے اس کی حدیث ضعیف نہیں ہو جاتی بلکہ حسن یا صحیح رہتی ہے لہٰذا یہاں تشیع کی جرح مردودہے۔
7۔عبید اللہ بن موسیٰ کے استاذعیسیٰ بن عمرالاسدی الہمدانی ابو عمر القاری الاعمیٰ ،صاحب الحروف ثقہ تھے۔ دیکھئے تقریب التہذیب(5314)
8۔عیسیٰ بن عمر القاری کے استاذ اسماعیل بن عبد الرحمٰن بن ابی کریمہ السدی(سدی کبیر)صحیح مسلم کے راوی اور جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث تھے۔ نیز دیکھئے تحریر تقریب التہذیب(1؍136ت436)