کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 572
حاکم، ترمذی اور ابن حبان کا تساہل؟! سوال: امام حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح اور امام ترمذی رحمہ اللہ کی تحسین اور امام ابن حبان رحمہ اللہ کی توثیق کا جمہور محدثین کے نزدیک کیا اعتبار ہے؟(ایک سائل) الجواب: الحمد لله رب العالمين والصلوٰة والسلام علي رسوله الامين‘اما بعد: مذکورہ تینوں محدثین کے بارے میں تحقیقی جواب علی الترتیب درج ذیل ہے: 1۔معرفۃ علوم الحدیث ، تاریخ نیشاپور، المدخل اور المستدرک علی الصحیحین جیسی کتب مفیدہ کے مصنف ابو عبد اللہ محمد بن حمدو یہ بن نعیم عرف ابن البیع النیسابوری رحمہ اللہ (متوفی405ھ)کے بارے میں محدثین کرام کے درمیان اختلاف تھا۔ جرح کی تفصیل درج ذیل ہے: 1۔ابو الفضل بن الفلکی الہمذانی(علی بن الحسین بن احمد بن الحسن رحمہ اللہ متوفی 427ھ)سے روایت ہے کہ"وكان ابن البيِّـع يميلُ إلى التشيُّع"حاکم تشیع کی طرف مائل تھے۔(تاریخ بغداد5؍474)ت3024) یہ قول ابن الفلکی سے ثابت نہیں ہے کیونکہ "بعض اصحابنا" مجہول راوی ہے۔ 2۔محمد بن طاہر المقدسی الحافظ نے کہا:حاکم نے کہا:حدیث الطیر(سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور پرندے کے گوشت )والی حدیث صحیح ہے اور صحیحین میں یہ روایت نہیں لی گئی۔ ابن طاہر نے کہا:یہ موضوع حدیث ہے جسے کوفہ کے ساقط راویوں نے مشہور اور مجہول راویوں کی سند کے ساتھ انس( رضی اللہ عنہ )وغیرہ سے بیان کیا ہے۔ حاکم کی حالت دو باتوں سے خالی نہیں ہے یا تو وہ صحیح سےجاہل تھا لہٰذا اس کے قول پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔یا وہ جانتا تھا پھر اس کے خلاف کہتا تھا تو وہ اس طرح معاند کذاب بن جاتا ہے۔(المنتظم لا بن الجوزی 15؍110) ابن طاہر کی یہ جرح کئی وجہ سے مردود ہے، مثلاً: