کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 571
ماہنامہ الحدیث حضرو:33) میں اختیار کیا ہے۔ یاد رہے کہ عبد الرشید انصاری صاحب کے نام میرے ایک خط (19؍1408ھ)میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں یہ لکھا گیا تھا: ’’طبقہ ثانیہ کا مدلس ہے جس کی تدلیس مضر نہیں ہے۔‘‘ (جرابوں پر مسح ص40) میری یہ بات غلط ہے میں اس سے رجوع کرتا ہوں، لہٰذا اسے منسوخ و کالعدم سمجھا جائے گا۔ عینی حنفی نے لکھا : "وسفيان من المدلسين والمدلس لا يحتج بعنعنته إلا أن يثبت سماعه من طريق آخر" اور سفیان (ثوری)مدلسین میں سے ہیں اور مدلس کی عن والی روایت سے حجت نہیں پکڑی جاتی الایہ کہ دوسری سند سے سماع کی تصریح ثابت ہو جائے۔(عمدۃ القاری3؍112)(شہادت، اپریل 2003ء) روایات میں وجۂ ترجیح سوال: کسی حدیث میں ایک راوی موصول اور دوسرا موقوف روایت بیان کرے تو کو ن سی (روایت)کو ترجیح دی جائے گی۔ موصول کو یا موقوف کو؟ تفصیل ضرور لکھیں ۔ نیز زیادتی ثقہ کے بارے میں علمائے حدیث کا راجح موقف کیا ہے؟(ایک سائل) الجواب: اس بارے میں محدثین کا اختلاف ہے۔ میری تحقیق میں اگر موصول کا راوی ثقہ اور منقطع کے راوی ثقات ہیں، یا مرفوع کا راوی ثقہ اور موقوف کے راوی ثقات ہیں تو موصول و مرفوع کو ترجیح ہو گی بشرطیکہ روایت مذکورہ کو جمہور محدثین نے شاذو معلول نہ قراردیا ہو۔ (زیادتیٔ ثقہ پر راقم الحروف کی مفصل تحقیق کے لیے دیکھئے تحقیقی مقالات جلد دوم:صحیح مسلم کی ایک حدیث کا دفاع) تنبیہ:صحیحین کی روایات کو بھی دوسری روایات پر عام ترجیح حاصل ہے۔(شہادت فروری 2002ء)