کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 570
یعنی جس آدمی سے ساری زندگی میں صرف ایک دفعہ تدلیس ثابت ہو جائے تو اس کی عدم تصریح سماع اور عدم متابعت والی روایت (غیر صحیحین میں)ضعیف ہوتی ہے۔ بشرطیکہ اس راوی کا مدلس ہونا صحیح ثابت ہو جائے ،صحیحین کا استثناء دوسرے دلائل کے ساتھ ثابت ہے۔تفصیل کے لیے میرا رسالہ: "التاسيس في مسئلة التدليس" دیکھیں۔لہٰذا سدل سے ممانعت والی مرفوع روایت ضعیف ہی ہے۔(شہادت جنوری 2003ء) سفیان ثوری رحمہ اللہ اور ان کی تدلیس سوال: سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس اور معنعن روایات کے بارے میں آپ کے نزدیک راجح قول کیا ہے؟(محمد محسن سلفی کراچی) الجواب: سفیان ثوری کے بارے میں راجح یہی ہے کہ وہ (ثقہ امام فقیہ مجتہد امیر المومنین فی الحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ )مدلس بھی تھے اور ضعفاء وغیرہم سے تدلیس کرتے تھے۔لہٰذا غیر صحیحین میں ان کی معنعن روایت ،عدم متابعت وعدم تصریح سماع کی صورت میں ضعیف و مردود ہوتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا انھیں طبقہ ثانیہ میں شمار کرنا صحیح نہیں بلکہ وہ طبقہ ثالثہ کے فرد ہیں۔ جیسا کہ حافظ العلائی (صحیح یہ ہےکہ حاکم)نے انھیں طبقۂ ثالثہ میں ذکر کیا ہے۔(دیکھئے جامع التحصیل ص99،اور نور العین ص 127،طبع جدید ص138) حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا: "أما المدلسون الذين هم ثقات وعدول فإنا لا نحتج بأخبارهم إلا ما بينوا السماع فيما رووا، مثل الثوري والأعمش وأبي إسحق واضرابهم" اور ایسے مدلس راوی جو ثقہ عدل تھے تو ہم ان کی احادیث سے حجت نہیں پکڑتے سوائے اس کے کہ وہ تصریح سماع کریں جو انھوں نے روایت کیا ہے، مثلاً ثوری ، اعمش ، ابو اسحاق اور ان جیسے دوسرے ۔۔۔۔الخ (الاحسان ج1 ص90وفیہ ثم بدلہم دوسرا نسخہ ج1 ص161) اور یہی تحقیق راجح و صحیح ہے۔راقم الحروف نے اسے نورالعینین ین(طبع جدید ص134،138)اور التاسیس فی مسئلہ التدلیس (مطبوعہ ماہنامہ محدث لاہورجنوری 1996ء ج 27 عدد 4،