کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 569
مسئلۂ تدلیس اور محدثین
سوال : بعض محدثین مدلس راوی کی عن والی روایت کو مطلقاً نہیں مانتے، خواہ وہ بخاری و مسلم کی کیوں نہ ہو اور بعض اہل حدیث علماء مدلس راوی طبقہ اولیٰ اور ثانیہ کی عن والی روایت قبول کرتے ہیں۔البانی رحمہ اللہ بعض جگہ بلکہ اکثر جگہ پر مدلس راوی کی عن والی روایت (بغیرتحدیث اور ثقہ متابعت کے)صحیح یا حسن گردانتے ہیں لیکن بعض جگہ وہ مدلس راوی کی سکتات والی روایت میں حسن بصری اور فاتحہ خلف الامام والی روایت (فجر کی نماز )میں مکحول اور محمد بن اسحاق پر شدید جرح کرتے ہیں۔ اور بعض محدثین کا یہ قول ہے کہ اگر (مدلس راوی)ثقہ اساتذہ سے روایت کرنے میں تدلیس کرے تو وہ قابل قبول ہو گی۔ یعنی ابن عبدالبر ، سیوطی اور ابن حبان وغیرہ۔
غالباً صرف امام شافعی رحمہ اللہ اس کو نہیں مانتے۔ سدل فی الصلاۃ والی روایت میں ایک مدلس راوی عن سے روایت کرتا ہے بغیر تحدیث اور ثقہ متابعت کے، البانی رحمہ اللہ اس کوصحیح گردانتے ہیں۔(حبیب اللہ ۔پشاور)
الجواب: بعض علماء کے نزدیک اگر مدلس راوی ضعیف راویوں سے تدلیس کرے تو اس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ مثلاً حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
"ثُمَّ إِنْ كَانَ الْمُدَلِّسُ عَنْ شَيْخِهِ ذَا تَدْلِيسٍ عَنِ الثِّقَاتِ فَلَا بَأْسَ وَإِنْ كَانَ ذَا تَدْلِيسٍ عَنْ الضُّعَفَاءِ فَمَرْدُودٌ"
’’ پھر اگر مدلس اپنے ثقہ استاذوں سے تدلیس کرے تو( اس کی روایت میں)کوئی حرج نہیں ہے اور اگر ضعیف راوی سے تدلیس کرے تو(اس کی روایت)مردود ہے۔(الموقظہ ص45)
لیکن تدلیس کے بارے میں راجح وہی مسلک ہے جو امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الرسالۃ میں لکھا ہے کہ "وَمَنْ عَرَفْنَاهُ دَلَّسَ مرۃ ...... لَا نَقْبَلُ مِنْ مُدَلِّسٍ حَدِيثًا حَتَّى يَقُولَ فِيهِ «حَدَّثَنِي» أَوْ «سَمِعْتُ»" (ص379،370فقرۃ 1033،1035)