کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 562
تفسیر ابن کثیر(3؍439)تحت آیۃ 52،53من سورۃ الروم)میں عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے اقارب والا واقعہ بے اصل ہے۔ جو لوگ اسے صحیح سمجھتے ہیں ان پر یہ لازم ہے کہ وہ اس کی پوری سند مع توثیق اسماء الرجال پیش کریں۔
صرف کسی کتاب کا حوالہ دے دینا کافی نہیں ہے۔ مثلاً تفسیر ابن کثیر میں عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب بے اصل قصے سے پہلے ابن ابی الدنیا کی کتاب سے منقول ایک روایت کا راوی خالد بن عمر و الاموی،کذاب، منکرالحدیث ،متروک الحدیث ہے۔دیکھئے تہذیب الکمال (5؍394،395)
اسی ایک مثال سے ان بے اصل روایات کی حقیقت سمجھ لیں۔
جس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مردہ اپنی قبر میں زیارت کرنے والے کو پہچانتا ہے۔اس کی روایہ فاطمہ بنت الریان کے حالات نہیں ملے۔
دیکھئے السلسلۃ الضعیفۃ للشیخ الالبانی رحمہ اللہ (9؍475ح4493)
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس مفہوم کی دیگر روایات پر بھی جرح کر کے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ روایت "ضعیف"ہے دیکھئے السلسلۃ الضعیفۃ(ص473تا476)
آپ کی ذکر کردہ مسند احمد والی روایت(ج3ص165ح12683)بھی"عمن سمع"والے مجہول راوی کی وجہ سے ضعیف ہے۔(شہادت فروری2004ء)
دفنا نے کے بعد قبر کے پاس کھڑا ہونا
سوال: صحیح مسلم (121،ترقیم دار السلام :321)میں ہے کہ مرتے وقت حضرت عمرو بن العاص نے اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد مجھے دفن کر کے اتنی دیر تک قبر کے پاس ٹھہرے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے۔
کیا یہ روایت صحیح ہے؟کیا صاحب قبر کو اپنی قبر کے پاس کھڑے رہنے کا علم ہوتا ہے اور اس سے اسے تسلی اور اطمینان بھی حاصل ہوتا ہے؟(وقار علی، لاہور)
الجواب:یہ روایت بالکل صحیح ہے۔ ابوعاصم الضحاک بن مخلد النبیل پر جرح باطل