کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 559
تنبیہ: احوص بن المفصل کے بارے میں راجح یہی ہے کہ وہ لیس بہ باس (یعنی صدوق حسن الحدیث)تھے۔دیکھئے سوالات السہمی للدارقطنی (208)
ان جارحین کے مقابلے میں معدلین و موثقین کے اقوال بھی پڑھ لیں:
1۔یحییٰ بن معین :ثقہ (تاریخ یحییٰ بن معین : 1087الجرح والتعدیل 8؍357)
2۔العجلی:ثقہ (تاریخ الثقات: 1643)
3۔الدارقطنی: صدوق (سوالات الحاکم للدارقطنی:484)
4۔البخاری:روی لہ فی صحیحہ (3371،5515)
5۔ابن خزیمہ:روی لہ فی صحیحہ (2830)
6۔ابن حبان: روی لہ فی صحیحہ (موارد:714،2229،الاحسان :6921،2967)
7۔الضیاء المقدسی:روی لہ فی المختارۃ (3؍368،386،ح394،412)
8۔الحاکم : صحح لہ فی المستدرک (1؍342،343،364،365،3؍213)وغیرہ
9۔الترمذی: قال فی حدیثہ :"حسن صحیح "(2060)
10۔ابن شاہین: ثقہ (الثقات:1412)
11۔بیہقی :صحح حدیثہ (شعب الایمان:395)
12۔ابو عوانہ : روی لہ فی صحیحہ (اتحاف المہرۃ2؍459ح 2063)
13۔الذہبی: صحح حدیثہ (تلخیص المستدرک 1؍37۔40)
ذہبی نے میزان الاعتدال میں منہال کے ساتھ "صح "کی علامت لکھی ہے۔(4؍192)
تعدیل زاذان (حوالہ نمبر10)میں بحوالہ لسان المیزان (2؍159)گزر چکا ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک ایسے راوی پر جرح باطل ہوتی ہے اس کے باوجود حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے سیراعلام النبلاء (5؍184)میں یہ عجیب و غریب بات لکھ دی ہے۔
"حَدِيْثُهُ فِي شَأْنِ القَبْرِ بِطُوْلِهِ فِيْهِ نَكَارَةٌ وَغَرَابَةٌ"
یعنی اس کی عذاب القبر والی حدیث میں اجنبیت اور اوپر اپن ہے۔