کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 555
یرسل اور فیہ شیعیہ کا جواب پر گزر چکا ہے متقدمین کی اصطلاح میں تشیع اور رفض کا فرق ہے لہٰذا یہ لفظ جو کہ ثابت بھی نہیں ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک بھی جرح نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر عن البراء والی حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: "کما ثبت فی الحدیث "(جیسا کہ حدیث میں ثابت ہوا ۔) (فتح الباری 3؍235تحت ح 1374) 18۔ابو موسی الاصبہانی : حسنہ (الترغیب الترہیب4؍369) 19۔ابن القیم:قال فی حدیثہ "فالحدیث صحیح لا شک فیہ"(کتاب الروح ص65) 20۔ابن تیمیہ:حسن حدیثہ (مجموع فتاوی 4؍290) 21۔الضیاء المقدسی : اخرج حدیثہ فی المختارۃ (2؍74ح 451) 22۔المنذری: ثقہ مشہور (الترغیب الترہیب 4؍369ح5221) 23۔الترمذی:صحح لہ کما تقدم (ص23) معلوم ہوا کہ محدثین کرام کی بہت بڑی اکثریت زاذان کو ثقہ و صدوق اور صحیح الحدیث و حسن الحدیث قراردیتی ہے، لہٰذا چند علماء کی غیر مفسر وغیر ثابت جرح ان کے مقابلے میں مردودہے ۔ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ کا زاذان کے بارے میں رویہ عجیب و غریب ہے وہ انھیں کتاب الثقات(4؍265)میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں:" یخطی کثیراً "وہ بہت غلطیاں کرتا تھے۔ ظاہر ہے کہ جو بہت غلطیاں کرے وہ ضعیف ہوتا ہے ثقہ نہیں ہوتا لہٰذا سے کتاب الثقات میں ذکر کرنے کا کیا فائدہ ؟اگر ثقہ ہے تو وہ "یخطیٰ کثیراً" بالکل نہیں ہے۔ گویا حافظ ابن حبان رحمہ اللہ کا قول اور الثقات میں راوی کا ذکر دونوں متناقض ہو گئے۔اگر امام ابن حبان رحمہ اللہ کے دواقوال میں تعارض و تناقض واقع ہو جائے تو دونوں ساقط ہو جاتے ہیں(قال الذہبی:"فتساقط قولاہ"میزان الاعتدال 2؍552ترجمہ عبدالرحمان بن ثابت