کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 553
"فيه شيعیة"(ان میں شیعیت ہے۔)والی بات دووجہ سے مردودہے:
اول:حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تہذیب التہذیب میں اس قول کا ذکر و ماخذ بیان نہیں کیا اور تقریب التہذیب ، تہذ یب ہی کا خلاصہ ہے۔جب اصل میں ایک قول ہے ہی نہیں تو خلاصے میں کہاں سے آگیا؟
دوم:حافظ ابن حجر سے پہلے یہ قول محمد بن عمر الواقدی (کذاب )سے مروی ہے۔عن محمد بن عمر(الواقدی)"وكان من شيعة علي"اور وہ بھی جماعت میں سے تھے۔
(کتاب الکنیٰ للدولابی 2؍42و تاریخ دمشق لا بن عساکر 20؍218)
واقدی کذاب ومتروک تھا۔ دیکھئے میزان الاعتدال وغیرہ ۔
ابراہیم بن ہاشم غیر موثق ہے۔ دیکھئے تاریخ بغداد(6؍202،203)
محمد بن ابراہیم بن ہاشم بھی غیر موثق ہے۔(انظر تاریخ بغداد1؍399)
محمد ابراہیم کا شاگرد صاحب الکنی محمد بن احمد بن حمادالدولابی ضعیف ہے۔
دیکھئے میزان الاعتدال(3؍459)
معلوم ہوا کہ"فیہ شیعیۃ "والاقول ہر لحاظ سے باطل ہے۔ یہ کل جرح تھی۔ ابن حبان کی جرح کا ذکر آخر میں آرہا ہے اب زاذان کی توثیق و تعدیل بھی پڑھ لیں۔
1۔یحییٰ بن معین :ثقہ (سوالات ابن الجنید:249)
2۔خطیب بغدادی : کان ثقہ(تاریخ بغداد 8؍487)
3۔العجلی: ثقہ (تاریخ الثقات:450)
4۔مسلم:احتج بہ فی صحیحہ (1657،1997؍57)
5۔ابن عدی :واحادیثہ لا باس بھا اذاروی عنہ ثقہ (الکامل 3؍1091)
6۔ابن سعد : وکان ثقہ قلیل الحدیث (الطبقات الکبری 6؍179)
7۔ابو عوانہ الاسفرائنی :احتج بہ فی صحیحہ (5289۔290)
8۔ابن الجارود:روی لہ فی المنتقیٰ :842