کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 552
2۔الحکم بن عتیبہ :حکم نے زاذان سے روایت نہ لینے کا سبب یہ بیان کیا:
"اكثر يعني من الرواية" اس نے بہت سی روایتیں بیان کی ہیں۔(الجرح والتعدیل3؍614وسندہ صحیح و کتب اخریٰ)
ظاہر ہے کہ بہت سی روایتیں بیان کرنا کوئی جرح نہیں بلکہ خوبی ہے۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بہت سی حدیثیں بیان کی ہیں حتیٰ کہ بعض علماء نے ان کے بارے میں بھی کہہ دیا تھا کہ "اکثرابو ہریرہ "ابو ہریرہ( رضی اللہ عنہ ) نے کثرت کردی۔
(صحیح مسلم :2497؍160۔وصحیح البخاری:2047)
3۔ابو احمد الحاکم الکبیر النیسابوری :"ليس بالمتين عندهم" وہ ان کےنزدیک المتین نہیں تھے۔(تاریخ دمشق لا بن عساکر20؍213)
یہ جرح کئی لحاظ سے مردود ہے۔
ا۔المتین کی نفی کا یہ مطلب نہیں کہ وہ متین (بغیر الف لام)بھی نہیں ہے، لہٰذا ایسا راوی اگر جمہور سے توثیق ثابت ہو تو حسن الحدیث سے کم نہیں ہوتا۔
ب:"عندھم "یعنی ان (نامعلوم لوگوں)کے نزدیک لیس بالمتین ہونا اس لیے بھی مردود ہے کہ یہ نا معلوم لوگ کون ہیں؟ظاہر ہے کہ مجہول کی جرح کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
ج:ابو احمد الحاکم (پیدائش290ھ اوقبلھا285ھ وفات 378ھ)بہت بعد کے علماء میں سے ہیں،امام ابن معین وغیرہ کے مقابلے میں مجہول لوگوں سے ان کی نقل کردہ جرح مردود ہے۔
4۔حافظ ابن حجر العسقلانی : "صدوق يرسل وفيه شيعية" (تقریب التہذیب :1988)
یعنی یہ سچے تھے مرسل روایتیں بیان کرتے تھے اور ان میں شیعیت ہے۔
مرسل روایتیں بیان کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ امام ابو داود کی کتاب المراسیل پڑھ لیں۔
امام عطاء بن ابی رباح وغیرہ بہت سے تابعین مرسل روایتیں بیان کرتے تھے۔