کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 551
ابو عمر زاذان الکندی الکوفی صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔
صحیح مسلم:(1657،1997؍57)
ترمذی: (1846)(1868وقال :حسن صحیح) 1986،2566،3812)
ابو داؤد: (249،3212،3761،5168)
النسائی: (1283،2003،5648)
ابن ماجہ: (599،1548،1549،1555،4021)
ابن خزیمہ: (2791)
ابن حبان: (الاحسان2؍134ح910)
اب زاذان پر جرح مع تبصرہ پیش خدمت ہے:
1۔ سلمہ بن کہیل ۔ "أبو البختري الطاعی أعجب إلي"
(کتاب المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان 2؍795وسندہ صحیح)
یعنی اس کے بجائے مجھے ابو البختری الطائی زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔
یہی قول دوسرے علماء نے اختصار و تفصیل اور معمولی اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔دیکھئے تہذیب التہذیب وغیرہ ،ابو البختری سعید بن فیروز الطائی صحاح ستہ کے راوی اور ثقہ تھے۔دیکھئے تہذیب الکمال للمزی (7؍278،279)
تنبیہ: سلمہ بن کہیل121ھ یا 123ھ میں فوت ہوئے۔(تہذیب الکمال 7؍459،460)
وہب بن وہب الاسدی المدنی القاضی 121ھ یا اس کے بعد پیدا ہوا۔
دیکھئے سیرا علام النبلاء (9؍375)قال: توفی سنۃ مائتین ولہ بضع وسبعون سنۃ)
لہٰذاسلمہ بن کہیل کے قول کا مصداق وہب بن وہب قطعاً نہیں ہےاور کتاب المعرفۃ کی صراحت’’الطائی‘‘اس سلسلے میں فیصلہ کن ہے کیونکہ الطائی صرف سعید بن فیروز ہے وہب بن وہب نہیں۔ سعید بن فیروز الطائی چونکہ ثقہ تھے، لہٰذا انھیں زاذان پر ترجیح دینا کوئی جرح نہیں ہے۔سلمہ بن کہیل نے ابو البختری الطائی کے ایک قول کو بطور حجت پیش کیا ہے۔
(المعجم لا بن الاعرابی :431 وسندہ قوی)