کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 55
الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس" (ج 2 ص 195 ح 2206) میں اس مفہوم کی بعض مرویات کا تذکرہ موجود ہے۔صاحب کتاب نے امام عراقی وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ یہ روایت بے اصل ہے۔نیز دیکھئے’’ضعیف اور موضوع روایات‘‘ج1 ص 77 تصنیف:مولانا محمد یحییٰ گوندلوی حفظہ اللہ(رحمہ اللہ ) (الحدیث :9) وحدت الوجود کیا ہے؟اور اس کاشرعی حکم سوال: میں آپ کے مؤقر اسلامی جریدے ماہنامہ"الحدیث" کامستقل قاری ہوں۔آپ جس محنت اور عرق ریزی سے مسائل کی تحقیق وتنقیح فرماتے ہیں،اس سے دل کو اطمینان وسرور حاصل ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کے زور قلم کو اور بھی بڑھادے۔ دوسوالات پوچھنا چاہتا ہوں،اُمید ہے کہ آپ ان کی تحقیق وتخریج اور تنقیح فرمائیں گے۔(پہلا سوال یہ ہے کہ) فلسفۂ وحدت الوجود کیا ہے؟اس کی مکمل تفصیل اور تنقیح فرمائیں۔ والسلام:آپ کا دینی بھائی (محمد شیر وزیر۔پی سی ایس آئی آرلیبارٹریز،پشاور) تنبیہ:دوسرا سوال مع جواب آگے آرہا ہے۔ان شاء اللہ۔ الجواب: اردو لغت کی ایک مشہور کتاب میں وحدت الوجود کامطلب ان الفاظ میں لکھاہواہے: ’’ تمام موجودات کو اللہ تعالیٰ کا وجود خیال کرنا۔اور وجود ماسویٰ کو محض اعتباری سمجھنا جیسے قطرہ ،حباب،موج اور قعر وغیرہ سب کو پانی معلوم کرنا۔‘‘(حسن اللغات فارسی اردو ص941) وارث سرہندی کہتے ہیں:’’صوفیوں کی اصطلاح میں تمام موجودات کو خدا تعالیٰ کا وجود ماننا اور ماسوا کے وجود کو محض اعتباری سمجھنا۔‘‘ (علمی اردو لغت ص1551) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وَأَمَّا " الِاتِّحَادُ الْمُطْلَقُ " الَّذِي هُوَ قَوْلُ أَهْلِ وَحْدَةِ الْوُجُودِ الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّ وُجُودَ الْمَخْلُوقِ : هُوَ عَيْنُ وُجُودِ الْخَالِقِ ". اور اتحاد مطلق اسے کہتے ہیں جو وحدت الوجود والوں کا قول ہے:جو سمجھتے ہیں کہ مخلوق کاوجود عین خالق کا وجود ہے۔(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج10 ص59)