کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 543
یعنی وہ روایت حدیث میں کمزور تھا ۔اس نے موقوف روایات کو مرفوع بیان کر دیا تھا۔ 2۔شریک بن عبد اللہ القاضی کو امام دارقطنی وغیرہ نے مدلس قراردیا ہے۔ (طبقات المدلسین لا بن حجر 56المرتبۃ الثانیہ) اگرچہ شریک رحمہ اللہ تدلیس سے براءت کا اعلان کرتے تھے اور’’آپ کی تدلیس زیادہ نہیں ہے۔‘‘ (دیکھئے التبین لاسماء المدلسین لا بن العجمی ص33ت 33) لیکن عین ممکن ہے کہ تدلیس التسویہ سے براءت کا اعلان کرتے تھے۔رہا مسئلہ کم یا زیادہ تدلیس کا تو اس بارے میں راجح یہی ہے کہ جو شخص ساری زندگی میں صرف ایک مرتبہ بھی تدلیس کرے اس کی عن والی منفرد روایت غیر مقبول ہوتی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: "من عرفناه دلس مرة فقد أبان لنا عورته" ہم نے جسے ایک دفعہ تدلیس کرتے ہوئے جان لیا تو اس کی حیثیت ہمارے سامنے واضح ہوگئی ۔(الرسالۃ ص379رقم 1033) اور فرمایا: "فقلنا: لا نقبل من مدلس حديثا حتى يقول فيه ؛حدثنى : او سمعت " ہم نے کہا:ہم کسی مدلس سے کوئی حدیث قبول نہیں کرتے الایہ کہ وہ سماع کی تصریح کرے۔(ایضاً ص380رقم 1035) نیز دیکھئے علوم الحدیث لا بن الصلاح (ص99نوع 12) 3۔ابراہیم بن مسلم الہجری سے یہ روایت شاگردوں کی ایک جماعت نے بیان کی ہے مگر کسی روایت میں دونوں طرف سلام پھیرنے کا ذکر نہیں۔ دیکھئے مسند احمد(4،356،383)سنن ابن ماجہ (1503،1592)مسند الحمیدی بتحقیقی (718)معانی الآثارللطحاوی (1؍495) المستدرک للحاکم (360) خود شریک القاضی سے ابو نعیم نے بغیر تسلیمتین کے یہ روایت بیان کی ہے۔ معانی الآثار للطحاوی طبع مکہ مکرمہ(ج1ص495)و طبع کراچی پاکستان (ج1ص332) مختصر یہ کہ یہ روایت کئی علتوں کی وجہ سے ناقابل حجت ہے۔ اسے شیخ البانی رحمہ اللہ