کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 542
سے)فارغ ہوتے تو اپنی دائیں طرف ایک سلام پھیرتے تھے۔(اس کی سند بالکل صحیح ہے)یہ سلام دائیں طرف پھیرنا چاہیے۔ امام ابو حنیفہ کے استاد امام مکحول الشامی رحمہ اللہ (تابعی)نے نماز جنازہ میں اپنی دائیں طرف ایک سلام پھیرا تھا۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج 3۔ص308،ح11506، ،وسندہ صحیح) ابراہیم بن یزید النخعی بھی نماز جنازہ میں ایک طرف (دائیں طرف )ایک سلام پھیرنے کے قائل تھے۔ (مصنف عبد الرزاق ج3ص493ح6445،وابن ابی شیبہ ج 3ص 307ح 11496وسندہ صحیح) اس کی سند صحیح ہے۔ امام عبد اللہ بن المبارک فرماتے ہیں کہ جو شخص جنازے میں دوسلام پھیرتا ہے وہ جاہل ہے،جاہل ہے۔(مسائل ابی داؤد ص154،وسندہ صحیح) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں صرف ایک سلام اور دائیں طرف ہی پھیرنا چاہیے۔ یہی قول اکثر اہل علم کا ہے اور عبد الرحمٰن بن مہدی ، احمد بن حنبل واسحاق بن راہویہ وغیرہم سے مروی ہے۔ دیکھئے الاوسط (ج5ص447) حرمین( مکہ و مدینہ )میں اسی پرعمل ہو رہا ہےوالحمد اللہ جو لوگ دونوں طرف سلام پھیرنے کے قائل ہیں ان کے دلائل کا مختصر جائزہ درج ذیل ہے: "عن ابن أبي أوفى: ۔۔۔۔۔۔ ثم سلم عن يمينه، وعن شماله" (السنن الکبری للبیہقی ج4 ص43) اس روایت کی سند تین علتوں کی وجہ سے ضعیف ہے۔ 1۔ اس کا راوی ابراہیم بن مسلم الہجری ضعیف ہے۔ اسے امام بخاری ، امام سفیان بن عیینہ اور جمہورمحدثین نے ضعیف قراردیا ہے۔ دیکھئے تحفۃ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء للبخاری بتحقیقی (ترجمہ:10) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: "لين الحديث رفع موقوفات" (تقریب التہذیب ص27)