کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 540
التكبيرة الأولى بأم القرآن مخافة ، ثم يكبر ثلاثا ، والتسليم عند الآخرة " نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر میں سورۂ فاتحہ سراً (خفیہ)پڑھے پھر تین تکبیریں کہے اور آخر میں سلام پھیردے ۔ یہ روایت صحیح ہے اور امام نسائی کی السنن الکبریٰ (ج1ص644ح2116)میں بھی موجود ہے۔اسے ابن الملقن نے تحفۃ المحتاج (ح788)اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (3؍204۔203)ح1335)میں صحیح کہا ہے۔ مصنف عبدالرزاق(ج3ص489، 4ح6428)اور منتقیٰ ابن الجارود(ح 540واللفظ لہ)میں سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف( رضی اللہ عنہ )سے اسی روایت میں آیا ہے کہ: "السنة في الصلاة على الجناز ة أن تكبر ، ثم تقرأ بأم القرآن ، ثم تصلي على النبي صلى اللّٰه عليه وسلم ، ثم تخلص الدعاء للميت ولا تقرأ إلا في التكبيرة الأولى ثم تسلم في نفسه عن يمينه" نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ توتکبیر کہے، پھر سورۃ فاتحہ پڑھے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے، پھر خالصتاً میت کے لیے دعا کرے۔اور(فاتحہ کی)قراءت صرف پہلی تکبیر میں ہی کرے ،پھر اپنی دائیں طرف خفیہ سلام پھیردے۔ اس روایت کی سند صحیح ہے۔ امام ابن شہاب الزہری نے سماع کی تصریح کردی ہے۔ ابو امامہ اسعد بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ صغار صحابہ میں سے تھے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا مگر سنا کچھ نہیں۔(دیکھئے تقریب التہذیب ص39،واسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ 1؍27تجرید اسماء الصحابۃج1ص10للذہبی اورالاصابۃ فی تمییز الصحابۃ لابن حجر ج1 ص97 القسم الثانی ) صحابی صغیر ہو یا کبیر، اہل سنت کے راجح مسلک میں صحابہ کی مراسیل بھی صحیح و مقبول ہوتی ہیں۔دیکھئے اختصار علوم الحدیث ابن کثیر(ص58طبع دار السلام)تیسیرمصطلح الحدیث (ص 74)اور عام کتب اصول حدیث۔ محمد عبید اللہ الاسعدی (دیوبندی)نے لکھا ہے کہ ’’مرسل صحابی۔۔۔۔جمہور کے نزدیک مقبول و لائق احتجاج ہے۔‘‘ الخ (علوم الحدیث ص137بہ نظر ثانی و تقریظ :حبیب الرحمٰن اعظمی دیوبندی)