کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 538
فی الحال گنجائش نہیں تاہم ایک صحیح حدیث پیش خدمت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن العاص اور ہشام بن العاص رضی اللہ عنہما دونوں سے فرمایا:
"إِنَّهُ لَوْ كَانَ مُسْلِمًا، فَأَعْتَقْتُمْ، أَوْ تَصَدَّقْتُمْ عَنْهُ، أَوْ حَجَجْتُمْ عَنْهُ، بَلَغَهُ ذَلِكَ "
اگر وہ (العاص بن وائل السہمی)مسلمان ہوتا تو اس کی طرف سے تم غلام آزاد کرتے یا صدقہ کرتے یا حج کرتے تو اسے (ثواب )پہنچتا۔
(سنن ابی داؤد رحمہ اللہ کتاب الوصایا باب ماجاء فی وصیۃ الحربی یسلم ۔ح2883،السنن الکبری للبیہقی ج6 ص289،و سندہ حسن)
اسے کسی منت یا وصیت وغیرہ سے مشروط کرنا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ حدیث کے الفاظ عام ہیں اور ان کے مقابلے میں ایسا کوئی صریح قرینہ نہیں جو انھیں منت یا وصیت وغیرہ سے خاص کر سکے۔(شہادت فروری 2000ء)
میت کی چار پائی قبلہ رخ اٹھانا
سوال: میت کو اٹھا کر لے جاتے وقت چار پائی کا رخ قبلہ کی طرف کرنا سنت ہے؟دلائل سے بتائیں۔(ڈاکٹر نسیم اختر،اسلام آباد)
الجواب: اس کی صریح دلیل مجھے نہیں ملی۔ عام مسلمانوں کا عمل بلا نکیر جاری ہے کہ میت کو لے جاتے وقت اس کا سر آگے کی طرف ہوتا ہے۔ ایک روایت میں آیاہے کہ:"البيت الحرام: قِبْلَتكُمْ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا" ’’یعنی بیت اللہ تمھارے زندہ اور مردہ، دونوں کا قبلہ ہے۔ ‘‘ دیکھئے سنن ابی داؤد (کتاب الوصایا، باب ماجاء فی التشدید فی اکل مال الیتیم، ح2875)
اس کی سند ضعیف ہے۔
لیکن مسلمانوں کے درمیان یہی عمل متواتر ہے۔نیز دیکھئے المحلیٰ لا بن حزم (ج5ص173،مسئلہ 615)
خلاصہ یہ کہ میت قبلہ رخ کرنا مستحب بالا جماع ہے۔(شہادت ستمبر2001ء)