کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 537
راویوں میں سے تھے۔(عمدۃ القاری ج7ص270)
محمد ادریس کاندھلوی دیوبندی نے لکھا:’’جمہور علماء نے اس کی توثیق کی ہے۔‘‘ (سیرت المصطفیٰ ج1ص76)
(جس راوی پر جرح ہواور جمہور محدثین نے اس کی توثیق کر رکھی ہو تو ایسے راوی کی روایت حسن لذاتہ ہوتی ہے الایہ کہ کسی خاص روایت میں بذریعہ تعلیل محدثین و ہم و خطاثابت ہوجائے تو یہ روایت مستثنیٰ ہو جائے گی اور اسی طرح خاص دلیل مثلاً خاص جرح عام دلیل مثلاً عام توثیق پر مقدم ہوتی ہے۔)
محمد بن اسحاق رحمہ اللہ نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے اور ان کی حدیث کے متعدد شواہد موجود ہیں۔ مثلاً دیکھئے سنن ابن ماجہ (1513)سنن دار قطنی (4؍118)السنن الکبری للبیہقی (4؍12) مسند احمد (1؍463) مستدرک الحاکم (ج2ص 119،120ج3ص197،595،596، (ج4ص60،61ح1955،کتاب الجنائز باب الصلوٰۃ علی اشہداء) اور سیرت ابن ہشام (ج3ص102)
لہٰذا اس حسن صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ جس میت کی نماز جنازہ ادا کی گئی ہو اس کا دوسرا جنازہ پڑھنا جائز ہے۔چاہے پڑھنے والے وہی ہوں، جنھوں نے پہلا جنازہ پڑھا ہو یا کوئی دوسرے ہوں۔وما علینا الاالبلاغ(شہادت جنوری 2001ء)
میت کی طرف سے صدقہ
سوال: کیا کسی مرنے والے کی طرف سے صدقہ کیا جا سکتا ہے؟جبکہ کہا جاتا ہے کہ احادیث میں جو مرحومین کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنے کا ذکر ہے وہ کسی نہ کسی منت کی وجہ سے ہےاور چونکہ منت بھی بمنزلہ قرض کے ہے اس لیے اس کا ادا کرنا ضروری ہے۔جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا اپنی والدہ کی طرف سے صدقہ کرنے والی احادیث میں منت وغیرہ کا ذکر ملتا ہے؟(طارق علی بروھی، کراچی)
الجواب: میت کی طرف سے صدقہ کا جواز صحیح احادیث سے ثابت ہے۔جس کی تفصیل کی