کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 536
سے روایت ہے: " أَنَّ رَسُولَ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ يَوْمَ أُحُدٍ بِحَمْزَةَ فَسُجِّيَ بِبُرْدِهِ ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهِ , فَكَبَّرَ تِسْعَ تَكْبِيرَاتٍ , ثُمَّ أُتِيَ بِالْقَتْلَى يُصَفُّونَ , وَيُصَلِّي عَلَيْهِمْ وَعَلَيْهِ مَعَهُمْ " ’’بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے دن حکم دیا تو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو ایک چادر میں لپیٹا گیا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے نو تکبیرات کہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوسرے شہداء لائے جاتے، انہیں صف میں رکھا جاتا تو آپ ان کی اوران کے ساتھ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی بھی نماز جنازہ پڑھتے رہے۔(ج1ص503باب الصلوۃعلی الشہداء) اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ اس کی سند کے ایک بنیادی راوی محمد بن اسحاق بن یسار ہیں جو کہ مغازی کے امام تھے۔ احمد رضا خان بریلوی نے لکھا: ’’ہمارے علمائے کرام قدست اسرارھم کے نزدیک بھی راجح محمد بن اسحاق کی تو ثیق ہی ہے۔محقق علی الاطلاق فتح میں زیر مسئلہ یستحب تعجیل المغرب فرماتے ہیں۔ابن اسحاق کی توثیق ہی واضح اور حق ہے۔‘‘ الخ (فتاویٰ رضویہ ج5ص592منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین ص145) زکریا صاحب تبلیغی دیوبندی نے لکھا: "وقال في رواية البزار محمد بن اسحاق وهو مدلس وهو ثقة" (اور کہا:بزار کی روایت میں محمد بن اسحاق ہیں اور وہ ثقہ مدلس ہیں۔)(تبلیغی نصاب ص595) زیلعی حنفی نے کہا:"وابن إسحاق الأكثر على توثيقه وممن وثقه البخاري" اور اکثر نے ابن اسحاق کو ثقہ قراردیا ہے اور آپ کی توثیق کرنے والوں میں سے امام بخاری بھی تھے۔(نصاب الرایہ4؍7) عینی حنفی نے کہا:"وتعليل ابن الجوزي بابن إسحاق ليس بشيء; لأن ابن إسحاق من الثقات الكبار عند الجمهور" ’’ابن جوزی کا ابن اسحاق (کی اس روایت )پر جرح کرنا کچھ چیز بھی نہیں ہے کیونکہ جمہور کے نزدیک ابن اسحاق بڑے ثقہ