کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 534
میں) سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا تھیں۔
(المستدرک للحاکم ج1ص365ح1350،وسندہ حسن، السنن الکبری ج4ص30،31)
"وقال الحاكم: "هذا صحيح على شرط الشيخين، وسنة غريبة في إباحة صلاة النساء على الجنائز "
’’یہ حدیث ،بخاری و مسلم کی(قائم کردہ)شرط پر صحیح ہے اور اوپری(عجیب وغریب)سنت (حدیث)ہے ،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں بھی نماز جنازہ پڑھ سکتی ہیں۔
وقال الہیثمی فی مجمع ا لزوائد : "رواه الطبرانى فى الكبير ورجاله رجال الصحيح " (3؍34)
(شہادت ،جولائی2000ء)
(تنبیہ:سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ والی حدیث صحیح مسلم(کتاب الجنائز باب الصلوٰۃ علی الجنازہ فی المسجد ح973ترقیم دارالسلام :2252)میں موجود ہے۔)
یاد رہے کہ عورتوں کو جنازے کے ساتھ جانے سے منع کیا گیا ہے مگریہ ممانعت تحریمی نہیں ہے، لہٰذا عورتوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ عام جنازے نہ پڑھیں لیکن حرمین (بیت اللہ اور مسجد نبوی)میں یا خاص مواقع پروہ نماز جنازہ پڑھ سکتی ہیں۔
غائبانہ نماز جنازہ کا حکم؟
سوال: غائبانہ نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟یہ کن حالات میں پڑھا جائے گا؟(ایک سائل)
الجواب: نجاشی رضی اللہ عنہ اور شہدائے اُحد کا غائبانہ نماز جنازہ ثابت ہے۔
(دیکھئے صحیح بخاری:1317،وصحیح مسلم:952)
حسب ضرورت غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔اسے معمو ل نہیں بنانا چاہیے جیسا کہ دیگر نصوص سے واضح ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔(شہادت،جنوری2000ء)
سوال: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائےاُحد کا جنازہ پڑھا تھا؟(ایک سائل)