کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 531
جنازے کی تکبیرات میں رفع الید ین کرنا قیس بن ابی حازم رحمہ اللہ (تابعی کبیر)نافع بن جبیر رحمہ اللہ ،عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ،مکحول رحمہ اللہ ،وہب بن منبہ رحمہ اللہ اور الزہری رحمہ اللہ سے ثابت ہے۔(دیکھئے جزء رفع الیدین ح112،114،118) یہی قول (و عمل)عطاء بن ابی رباح ، سالم بن عبد اللہ بن عمر ، اوزاعی ، شافعی ،احمد اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ وغیرہم کا ہے۔(الاوسط لا بن المنذرج5ص427) امام مالک رحمہ اللہ سے بھی ایک قول ، تکبیرات جنائز میں رفع الیدین کرنا پسند یدہ ہے، مروی ہے۔(ایضاً) حافظ ابن حجر نے دارقطنی کی کتاب العلل سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز جنازہ میں رفع الیدین کرنا مروی ہے۔(التلخیص الحبیر ج2ص146) مجھے اس کی سند نہیں ملی۔ اگر عمر بن شبہ تک سند صحیح ہو تو یہ سند حسن ہے کیونکہ عمر بن شبہ بذات خود صدوق حسن الحدیث راوی تھے۔ (بعد میں سند مل گئی ہے جو کہ عمر بن شبہ تک صحیح ہے، لہٰذا یہ روایت حسن لذاتہ ہے۔ دیکھئے کتاب العلل للدارقطنی 13؍22ح 2908) اس کے مقابلے میں شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے جو دو روایتیں پیش کی ہیں ان پر مختصر و جامع تبصرہ سن لیں۔ " عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ عَلَى جِنَازَةٍ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ، وَوَضَعَ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى " (احکام الجنائز للالبانی ص115والترمذی ح1077، بتحقیقی وقال:"غریب"البیہقی 4؍38، الدارقطنی 2؍74،ح1812 مختصراً و 1813،وابو الشیخ فی طبقات الاصبہانیین ص262بحوالہ البانی) اس کی سند ضعیف ہے۔اسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی "بسند ضعیف"قراردیا ہے۔اس کا راوی ابو فروۃ یزید بن سنان التمیمی الرھاوی ضعیف ہے۔(تقریب التہذیب ص558) اس پر جرح کے لیے تہذیب التہذیب اور میزان الاعتدال وغیرہما دیکھیں۔