کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 53
بائن من خلقه والخلق بائنون منه; بلا حلول ۔۔۔۔ "
اور بے شک اللہ اپنے عرش پر مستوی ہوا،بغیر کیفیت ،تشبیہ اور تاویل کے ،استواء معقول ہے اور کیفیت مجہول ہے اور بے شک وہ اپنے عرش پر مستوی ہے۔عزوجل ،اپنی مخلوقات سے جدا ہے اور مخلوق اس سے جدا ہے،بغیر حلول کے۔۔۔(الاستقامہ لابن تیمیہ ج1ص 168)
معلوم ہوا کہ جلوس کے لفظ کی نسبت حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر افتراء ہے۔رہا مسئلہ عرش پر اللہ تعالیٰ کا مستوی ہونا تو یہ قرآن ،حدیث اور اجماع سلف صالحین سے ثابت ہے۔
مشہور مفسر ِقرآن امام مجاہد(تابعی) رحمہ اللہ نے استوی کی تفسیر میں فرمایا:
"علا على العرش"عرش پر بلند ہوا۔
(صحیح بخاری مع فتح الباری 13؍403 قبل ح 7418 ،تفسیر الفریابی بحوالہ تغلیق التعلیق 5؍345)
تنبیہ:
روایت مذکورہ میں عبداللہ بن ابی نجیح مدلس تھے لیکن صحیحین میں مدلسین کی روایات سماع پر محمول ہیں ،لہذا یہاں تدلیس کااعتراض صحیح نہیں ہے۔
نیز دیکھئے تفسیر ابن کثیر(نسخہ محققہ دار عالم الکتب ج6 ص319)
فائدہ:
آج کل بہت سے دیو بندیوں نے کلبی(کذاب) کی روایت کردہ تفسیر ابن عباس کو سینے سے لگارکھا ہے،حالانکہ اس من گھڑت تفسیر میں استوی کا مفہوم:"استقر" لکھا ہوا ہے۔دیکھئے تنویر المقباس(ص 103)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے استوی کی تشریح میں استقر اور ظہر وغیرہ اقوال ذکر کرکے فرمایا:حسن(بصری کا قول:علا،ارتفع) اور (امام) مالک(المدنی کا قول:استواء معلوم اور کیفیت مجہول) سب سے بہترین جواب ہے۔دیکھئے مجموع فتاویٰ(ج5 ص 519،520)
استویٰ کا معنی ومفہوم"استولیٰ"کسی ایک صحابی ،تابعی،تبع تابعی یا مستند امام سے ثابت نہیں ہے،رہے ماتریدیہ اور کلابیہ وغیرہ تو سلف صالحین کے خلاف اُن کے افعال و اقوال کاکوئی اعتبار نہیں بلکہ سرے سے مردود ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا قرآن ،حدیث،اجماع اور آثار سے ثابت