کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 526
کھڑے ہو کر ایسی عبادت نہیں کرتے۔ یہ لوگ قبروں کے پاس نماز و دعاء سے ایسی امیدیں رکھتے ہیں جو وہ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ میں بھی نہیں رکھتے۔(الامربالا تباع والنبی عن الابتداع ،ص:63) یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کسی مسجد یا جگہ کی طرف خاص ثواب و برکت کے لیے سفر کرنا ثابت نہیں ہے۔دیکھئے صحیح البخاری (1189)وصحیح مسلم (1397) ایک دفعہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کوہ طور پر تشریف لے گئے تو سیدنا بصرہ بن ابی بصرہ الغفاری رضی اللہ عنہ نے انھیں فرمایا:اگر مجھے آپ کے جانے سے پہلے پتا چل جاتا تو آپ نہ جاتے ،پھر انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنائی۔ دیکھئے موطا امام مالک (ج1ص109ح239 وسند صحیح ) اسے ابن حبان رحمہ اللہ (موارد الظمآن :1024)نے صحیح کہا ہے اور یہ روایت اپنے بعض متن کے ساتھ مختصراً سنن ابی داؤد(1046)وسنن الترمذی(491وقال حسن صحیح)وصحیح ابن خزیمہ(1738)اور المستدرک للحاکم(1؍278،279وصححہ علی شرط الشیخین و وافقہ الذہبی)میں موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ کوہ طور پر ثواب حاصل کرنے کے لیے سفر کر کے جانا جائز نہیں ہے توقبروں کی طرف سفر کر کے جانا بھی جائز نہیں ہے۔ اسی لیے شاہ ولی اللہ الدھلوی الحنفی (متوفی 1176ھ)لکھتے ہیں۔ "والحق عندي أن القبر ومحل عبادة ولي من أولياء اللّٰه والطور كل ذلك سواء في النهي، واللّٰه اعلم " اور میرے نزدیک حق یہ ہے کہ بے شک قبر، اللہ کے ولیوں میں سے کسی ولی کی عبادت گاہ اور کوہ طور ممانعت میں سب برابر ہیں۔ واللہ اعلم۔ (حجۃ اللہ البالغہ ج1ص192من ابواب الصلوٰۃ المساجد) آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ رسم قل، ملاجی کا ختم شریف اور چہلم وغیرہ اعمال کا