کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 521
خلاصۃ التحقیق : خط کی مسئولہ روایت موضوع ، بے اصل وبے سند ہے ۔ وما علينا الاالبلاغ (الحديث :٢١) جنازے کے ساتھ ذکر بالجہر ؟ سوال: جنازہ کے پیچھے آواز بلند کرنا اس کی ممانعت میں احادیث وآثار واردہوئے ہیں یا صحابہ کرام کا ناپسندیدگی کا اظہار کرنا؟صحیح وضعیف دلائل بیان فرمادیں تاکہ لوگوں کو سمجھانے میں آسانی رہے ۔ یہ بھی الحدیث میں شائع کردیں ۔ ( محمد رمضان سلفی خطیب جامع بیت المکرم اہلحدیث ، عارف والا) الجواب: جنازے کے ساتھ بلند آواز سے ذکر کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآثار سلف صالحین سے ثابت نہیں ۔ایک روایت میں آیا ہے کہ آتے جاتے وقت جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے پیچھے چلتے توآپ سے لاالہ الااللہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں سنا جاتا تھا۔(الکامل لابن عدی 1؍ 269 ،4 1207 ۔1208 ونصب الرایۃ 3؍293 وجاءالحق؍ مفتی احمد یار نعیمی بریلوی ، طبع قدیم ج 3 ص 404) اس روایت کا راوی ابراہیم بن احمد بن عبد الکریم عرف ابن ابی حمید الحرانی الضریر جھوٹا تھا۔ "كان يضع الحديث" وہ حدیثیں گھڑتا تھا۔ (الکامل لابن عدی 1؍269 لسان المیزان 1؍28) نتیجہ : یہ سند موضوع ہے ۔ ایک دوسری روایت میں آیا ہے : "اكثروا في الجنازة قول: لااله الا اللّٰه " جنازہ میں کثرت سے لاالہ الا اللہ کہو ۔( الدیلمی 1؍32 بحوالہ سلسلۃ الضعیفۃ والموضوعۃ للالبانی 6؍414 ح 2881) اس میں عبداللہ بن محمد بن وہب ،یحیی بن محمد صالح اور خالد بن مسلم القرشی نامعلوم راوی ہیں ۔ نتیجہ : یہ روایت موضوع وبے اصل ہے ۔وما علینا الاالبلاغ (12؍ رجب 1426ھ) (الحدیث : 18)