کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 52
اور امام الدنیا فی فقہ الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ ایسی بات کے قائل ہوں۔!!
جو لوگ امام بخاری رحمہ اللہ پر جھوٹ بولنے سے شرم وحیا نہیں کرتے،وہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ پر کتنا جھوٹ بولتے ہوں گے۔؟!
4۔بجنوری نے لکھا ہے:’’تقلیدی شخصی ضروری ہے۔‘‘ (ملفوظات ص 223)
عرض ہے کہ کتاب اللہ ،سنت اور اجماع سے تقلید شخصی کا ضروری ہونا ہرگز ثابت نہیں بلکہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ اگر وہ(عالم) سیدھےراستے پر بھی(جارہا) ہوتو ا پنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔‘‘ الخ(کتاب الزہد للامام وکیع ج1 ص 299،300 ح71 وسندہ حسن دین میں تقلید کامسئلہ ص36)
اشرف علی تھانوی دیوبندی نے کہا:’’مگرتقلیدشخصی پر تو کبھی اجماع بھی نہیں ہوا۔۔۔‘‘ (تذکرۃ الرشید ج1 ص 131)
محمد تقی عثمانی دیوبندی نے تقلید شخصی کے بارے میں کہا:
’’یہ کوئی شرعی حکم نہیں تھا،بلکہ ایک انتظامی فتویٰ تھا۔‘‘(تقلید کی شرعی حیثیت ص65)
معلوم ہوا کہ احمد رضا بجنوری ایک مجروح شخص تھا اور بس(!) لہذا ایسے شخص کی نقل اور روایت مردود ہوتی ہے۔
استواء کامعنی جلوس کرنا حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے ثابت نہیں ہے۔
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ یہ عقیدہ ہرگز نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر بیٹھا ہوا ہے۔آپ کی کسی کتاب میں "جلس على العرش "یا" جلوسه علي العرش" وغیرہ قسم کی کوئی عبارت موجود نہیں ہے بلکہ آپ کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ حقیقتاً اپنے عرش پر مستوی ہے بغیر کیفیت اور تشبیہ کے۔دیکھئے مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (3؍217)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے الامام العارف معمر بن احمد الاصبہانی رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ:
"وإن اللّٰه استوى على عرشه بلا كيف ولا تشبيه ولا تأويل والاستواء معقول والكيف فيه مجهول . وأنه عز وجل ( مستو على عرشه)