کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 519
یہ قصہ دو وجہ سے ضعیف ہے :
عبداللہ بن محمد بن عقیل ( قول راجح میں) جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
عبداللہ بن محمد بن عقیل نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا زمانہ نہیں پایا ،لہذا یہ سند منقطع ہے۔
دیکھئے مجمع الزوائد للہیثمی (9 ؍211) ونصب الرایہ (2؍251 وقال: بسند ضعیف ومنقطع)
تنبیہ : مصنف عبدالرزاق اور الآحاد والمثانی میں عبدالرزاق کا استاد محمد بن راشد لکھا ہوا ہےجبکہ باقی کتابوں میں معمر(بن راشد)ہے۔نصب الرایہ(۲/۲۵۱)میں بھی معمر ہی ہے۔محمد بن راشد المکحولی اور معمر بن راشد دونوں عبد الرزاق کے استاد اور ابن عقیل کے شاگرد ہیں ۔
حافظ ابن کثیر نے کہا :" وما روي من انها اغتسلت قبل وفاتها واوصت ان لا تغسل بعد ذلك فضعيف لايعول عليه ّ واللّٰه اعلم " اور جو روایت کیاگیا ہے کہ انھوں ( سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ) نے اپنی وفات سے پہلے غسل کیا اور یہ وصیت کی کہ اس کےبعد انھیں غسل نہ دیاجائے تو یہ ضعیف ہے ،اس پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔ واللہ اعلم
( البدایہ والنہایۃ 6؍338)
خلاصۃ التحقیق : یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ومنکر ہے لہذا مردود ہے۔ اس کے مقابلے میں محمد بن موسیٰ ( بن ابی عبداللہ الفطری ابو عبداللہ المدنی) نے کہا: فاطمہ (رضٰی اللہ عنہا) کو علی (رضی اللہ عنہا) نے غسل دیاتھا ۔( طبقات ابن سعد 8؍ 28 وتاریخ المدینہ 1؍109)
اس روایت کی سند محمد بن موسیٰ (صدوق) تک صحیح ہے لیکن منقطع ہونے کی وجہ سے یہ بھی ضعیف ہے۔ اس قسم کی ایک ضعیف روایت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے ۔
دیکھئے المستدرک للحاکم (3؍163،164،ح 4769) حلیۃ الاولیاء(2؍43) السنن الکبری للبیہقی (3؍397) تاریخ المدینہ (1؍109) اور التلخیص الحبیر (2؍143 ح 907 وقال: واسنادہ حسن )
بعض علماء کا سیدنا اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا والی روایت کو حسن قراردینا محل نظر ہے ۔
(۲۷/ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ) (الحدیث :28)