کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 515
’’ تعزیت کی دعا میں ہاتھ اٹھانا بدعت ہے ۔‘‘ (احسن الفتاوی ٰ ج 4ص 245)
دیوبندی مدرسے خیر المدارس ملتان سے فتویٰ جاری ہوا:
’’ تعزیت مسنونہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابۂ کرام سے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنا ثابت نہیں۔‘‘
( رجل رشید تصنیف نعیم الدین دیوبندی ص173)
’’ دارالعلوم‘‘ دیوبند کے مفتی نے فتویٰ لکھا:
’’ تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کیف مااتفق انفرادی طور پر میت کے گھر جائے اور گھر والوں کو صبر کی تلقین کرے اور تسلی کے کچھ کلمات کہہ دے ، ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت نہیں ۔‘‘ ( حبیب الرحمن دیوبندی کا فتویٰ بحوالہ رجل رشید ص170)
دیوبندی مدرسے دارالعلوم کراچی والوں نے فتویٰ دیا:
’’ مروجہ طریقہ کے مطابق تعزیت کے لیے ہاتھ اٹھاکر فاتحہ پڑھنا اور دعا کرنا شرعا ثابت نہیں ہے، اس لیے تعزیت کے لیے رسمی طور پر ہاتھ اٹھانا درست نہیں ۔‘‘ ( رجل رشید ص171)
حیرت ہے ان لوگوں پر جو اس کام کو بدعت اور غیر ثابت قراردے کر بھی تعزیت کی اجتماعی دعاؤں میں سرگرم رہتے ہیں ۔! (الحدیث :61)
جمعرات کی روٹی اور چالیسویں وغیرہ ؟
سوال: ہمارے علاقے میں یہ رواج ہے کہ میت والے گھر سات (7) دن کے بعد جمعرات کی روٹی ملا (امام ) کے گھر بھیجتے ہیں اور چالیس (40) دن بعد چالیسواں کرتے ہیں اور ایک سال بعد عرس کرتے ہیں۔کیا یہ اسلام میں جائز ہے ؟
(حاجی نذیر خان دامان حضرو)
الجواب: جمعرات کی روٹی ، چالیسواں اور عرس کا کوئی ثبوت کتاب وسنت میں نہیں ہے بلکہ یہ سارے کام بدعت ہیں جن سے بچنا ضروری ہے ۔ ( تفصیل کے لیے دیکھئے ’’ معجم البدع‘‘ ص 162)