کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 514
دیو بندی مفتی رشید احمد لدھیانوی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں : ’’ تعزیت کی دعا میں ہاتھ اٹھانا بدعت ہے ۔‘‘(احسن الفتاوی ج 4ص 254 رجل رشید ص173) نعیم الدین دیوبندی اپنے قاری عبدالرشید دیوبندی سے نقل کرتے ہیں ، وہ اپنے والد دیوبندی مفتی عبدالحمید سے کہ قاری لطف اللہ دیوبندی صاحب جب ایک حادثہ میں فوت ہوئے تو ایک دیوبندی عالم ’’ تعزیت کے لیے ان کے پاس تشریف لے گئے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔۔۔۔ فقیر اللہ صاحب نے فورا فرمایا کہ مولانا کیا یہ حدیث سے ثابت ہے ؟ انھوں نے عرض کیا کہ حضرت غلطی ہوئی اور ہاتھ چھوڑدیئے ۔‘‘( دیکھئے رجل رشید ص 169) یہ فقیر اللہ دیوبندی صاحب قاری لطف اللہ دیوبندی کے والد اور دیوبندی مدرسے جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے بانی تھے جنھوں نے اپنے بیٹے کی موت پر مروجہ دعا سے اشارتا منع کردیا تھا۔ تعجب ہے کہ ہمارے علاقے میں دیوبندی حضرات بغیر کسی انکار اور جھجک کے اس مروجہ دعا پر عمل پیرا ہیں، حالانکہ ان کے اپنے مفتیان کرام اس عمل کو بدعت وغیر ثابت قرار دے چکے ہیں ۔اسی طرح بعض الناس کے بعض نام نہاد علماء کو ’’ کیا یہ حدیث ( دلیل) سے ثابت ہے ؟‘‘ والے سوال سے سخت چڑ ہے ۔حالانکہ طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ دلیل پوچھنے والے سے ناراض نہ ہوں، اگر دلیل معلوم ہوتو بیان کردیں یا پھر کہہ دیں کہ دلیل معلوم نہیں ہے ۔ (الحدیث :45) میت کے لیے ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعائیں ؟ سوال: جو لوگ میت کے گھر تین دن تک ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعا کرتے ہیں ،کیا یہ اسلام میں جائز ہے ؟ ( حاجی نذیر خان، دامان حضرو ) الجواب: میت کے گھر یا اہل میت کے پاس جاکر ، تین دن تک بار بار ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے کا کوئی ثبوت اسلام میں نہیں، لہذا یہ کام بدعت ہے ۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی دیوبندی نے لکھا ہے :