کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 513
یاد رہے کہ عورت اپنے خاوند کی وفات پر چار مہینے دس دن سوگ منائے گی۔
تعزیت کی ایک مشہور دعا درج ذیل ہے:
((ان لله مااخذ وله مااعطي وكل عنده باجل مسمي ّ)) بے شک اللہ ہی کے لیے ہے جو وہ عطا فرمائے اور ہر چیز اس کے پاس ایک خاص وقت کے لیے ہے ۔(صحیح بخاری :1284 واللفظ لہ ،صحیح مسلم :923 وترقیم دارالسلام :2135)
میت پر تعزیت کے لیے لوگوں کا بار بار دعا کی درخواست کرنا اور اجتماعی طور ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ سیدنا عبداللہ بن جعفررضی اللہ عنہ سے ثابت شدہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے) تیب دن گزرنے کے بعد ہمارے پاس تشریف لائے تو ہمارے سر منڈوادیے ، پھر آپ نے میرا (ایک ) ہاتھ پکڑ کر بلند کیا ،پھر فرمایا : اے اللہ! آل جعفر کی نگہبانی فرما اور عبداللہ بن جعفر کے لیے برکت نازل فرما ۔ ( مسند احمد 1؍204ح 175 وسندہ صحیح )
اس حدیث سے مروجہ دعا کا کوئی ثبوت نہیں ملتا بلکہ صرف پیار سے نابالغ بچے کے ایک ہاتھ کو آسمان کی طرف بلند کرنا ثابت ہے ورنہ صرف ایک ہاتھ سے دعاکرنا کیسا ہے؟
ایک غالی دیوبندی نعیم الدین نے ’’ رجل الرشید‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ۔ نعیم الدین نے اس کتاب میں اپنے دیوبندی علماء کے کئی فتوے نقل کئے ہیں جن میں تعزیت کی مروجہ دعا کو غیر ثابت اور غیر درست قراردیا گیا ہے ۔ مثلا دارالافتاء دارالعلوم کراچی کے محمد کمال الدین اور محمود اشرف دونوں لکھتے ہیں:’’ مروجہ طریقہ کے مطابق تعزیت کے لیے ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھنا اور دعا کرنا شرعا ثابت نہیں ہے ۔اس لیے تعزیت کے لیے رسمی طور پر ہاتھ اٹھانا درست نہیں ۔ کیونکہ تعزیت کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ میت اور اس کے اقارب کے لیے زبانی دعا کی جائے اور ان کو صبر دلایا جائے ۔البتہ انفرادی طور پر اگر میت کیلئے ہاتھ اٹھا کر مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کرلی جائے تو شرعا اس میں کوئی قباحت نہیں۔‘‘ ( رجل رشید ص171)