کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 512
تیار نہیں کریں گے بلکہ لوگ ان کے لیے کھانا پکا کر بھیجیں گے تاکہ وہ ان ایام غم میں کھانا پکانے کی طرف سے بے فکر رہیں ۔ رہا مسئلہ ایصال ثواب کاتو اس مروجہ دعوت طعام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ میت کی وفات کے تین دنوں کے بعد کسی وقت بھی میت کی طرف سے فقراء ومساکین میں ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے۔ (الحدیث : 45) سوال: بعض علاقوں میں ایسا ہوتا ہے کہ مرنے والے کے بعض رشتہ داراور دوست ا س کی وفات کے بعد چارپائیوں یا چٹائیوں وغیرہ پر تین یا چالیس دنوں کے لیے بیٹھ جاتے ۔ پھر جو لوگ تعزیت کے لئے آتے ہیں تو ان میں سے ہر آدمی با آواز بلند یہ کہتا ہے کہ دعا کریں ۔ پھر سب لوگ ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں۔ اس طرح کی مروجہ دعا، متعین جگہ پر اہل میت اور لوگوں کا اجتماع ، تعزیت کے دنوں تعین اور مروجہ طریقۂ تعزیت کا ثبوت کیا ہے ؟ قرآن وحدیث سے جواب دیں ۔ جزاکم اللہ خیراً (ایک سائل) الجواب: چالیس دنوں تک تعزیت کے لیے بیٹھنا ، ہر آدمی کا بآواز بلند دعا کا مطالبہ کرنا اور پھر سب لوگوں کا میت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا یہ سب بدعت ہے جس کا کوئی ثبوت شریعت مطہرہ میں موجود نہیں ہے۔ سیدنا جعفر بن ابی طالب الطیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آل جعفر کو تین دنوں کی مہلت دی ، پھر ان کے پاس جاکر فرمایا : آج کے بعد میرے بھائی پر نہ رونا۔ ( سنن ابی داود:4192 وسندہ صحیح ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت پر تین دنوں سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب زید بن حارثہ ، جعفر ( طیار ) اور عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ عنہم ) کی شہادت کی خبر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے۔آپ کے چہرے پر غم کے آثار نظر آرہے تھے۔ (صحیح بخاری :1299،صحیح مسلم : 935 وترقیم دارالسلام :2161) اس سے معلوم ہوا کہ اہل میت کا ( تعزیت والوں کے لیے ) بیٹھنا جائز ہے۔واللہ اعلم