کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 511
اس پر (نذر کے) روزے ہوں تو اس کا ولی (وارث ) اس کی طرف سے روزے رکھے ۔ (صحیح بخاری :1952 صحیح مسلم : 1147)
بعض الناس میں حیلۂ اسقاط کے مروجہ طریقے سے اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔مثلامال تو ایک ہزار روپے کا ہے مگر اسے ایک دوسرے کو بخشواتے اور پھیرے دلواتے ہوئے ہزاروں روپے کے ثواب تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
سرفراز خان دیوبندی نے اپنی کتاب ’’المنہاج الواضح ؍ راہ سنت‘‘ میں بعض نام نہاد متاخر ( تقلیدی ) فقہاء سے اس حیلے کا جواز نقل کیا ہے۔ ( دیکھئے ص 278۔ 283)
حالانکہ نہ تو اس حیلے کا کوئی ثبوت ہے اور نہ ان متاخر تقلیدی فقہاء کی ائمہ اربعہ اور سلف صالحین کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہے ۔ ( الحدیث : 45)
سوال: بعض لوگ نماز جنازہ سےپہلے یا بعد میں صفوں میں گڑ چینی تقسیم کرتے ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ( ایک سائل )
الجواب : یہ عمل بالکل بدعت ہے ۔ کتاب و سنت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں، لہذا ایسے اعمال سے کلی طور پر اجتناب کرنا چاہیے ۔ (الحدیث :45)
سوال: جس گھر میں کوئی آدمی فوت ہوجاتا ہے تو اس کے گھر والے کھانا تیار کرکے میت کے دفن کے بعد عام لوگوں کو کھلاتے ہیں چاہے کھانے والے امیر ہوں یا غریب ۔اسے خیرات کہاجاتا ہے اور امید یہ رکھی جاتی ہے کہ اس طرح سے ثواب ملے گا ،اس کھانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ (ایک سائل)
الجواب : ایسا کھانا کھلانا بدعت ہے اور کتاب وسنت میں اس کی کوئی دلیل نہیں ۔بلکہ سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان پر ایسی بات (مصیبت ) آگئی ہے جس نے انھیں مشغول کردیا ہے ۔( سنن ابی داود: 3132، وسندہ حسن )
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ میت کے گھر والے دوسرے لوگوں کے لیے کھانا