کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 510
عرف ابن علیہ سے ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ (26؍ نومبر 2007) (الحدیث : 45)
سوال: بعض لوگ جب میت کو جنازہ گاہ لے جاتے ہیں ساتھ ہی گڑ چینی یا صابون وغیرہ اور کچھ رقم بھی لے جاتے ہیں ۔ جنازہ گاہ میں جنازے سے پہلے یا بعد میں بعض لوگ (مولوی حضرات وغیرہ) ایک دائرہ بنا کر اس سامان کے ارد گرد بیٹھ جاتے ہیں۔ اس سامان پر قرآن مجید رکھ کر یہ لوگ باری باری اسے ہاتھ لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کو بخشتے رہتے ہیں ، اسے حیلۂ اسقاط کہاجاتا ہے۔
اس عمل کے بعد یہ لوگ یہ رقم اور سامان وغیرہ آپس میں یا لوگوں میں تقسیم کردیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ میت بخشی گئی یا اس کا ثواب بہت زیادہ ہوگیا ۔اس عمل حیلۂ اسقاط کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ (ایک سائل)
الجواب: اس مسئولہ طریقے حیلۂ اسقاط کا کوئی ثبوت قرآن وحدیث میں نہیں ہے اور نہ سلف صالحین کے آثار سے یہ طریقہ ثابت ہے، لہذا یہ عمل بالکل بدعت ہے جسے بعض متاخر تقلیدی علماء نے گھڑلیا ہے ۔ ائمہ اربعہ اور ان کے شاگردوں سے بھی یہ حیلہ ثابت نہیں ہے ، یہ سمجھنا کہ اس حیلے سے میت کے ذمہ نمازیں وغیرہ معاف ہوجائیں گی بلادلیل ہے۔ میت کے ذمہ اگر رمضان کے کچھ روزے باقی ہوں تو اس کی طرف سے فقراء ومساکین کو بطور فدیہ کھانا کھلانا چاہیے جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : " لايصلي احد ولايصوم احد عن احد ولكن يطعم عنه مكان كل يوم مدا من حنطة" کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی طرف سے نہ نماز پڑھے اور نہ روزہ رکھے بلکہ اس شخص کی طرف سے ( روزے کے) ہر دن کے بدلے میں ایک مد (دورطل ) گندم کا کھانا کھلانا چاہیے ۔ ( السنن الکبری للنسائی 2؍ 175ح 2918 وسندہ صحیح )
اگر کسی مرنے والے کے ذمے نذر کے روزے باقی ہوں تو صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ) جو شخص مرجائے اور