کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 51
کا معنی جانتے ہیں اور اس کی کیفیت کو نہیں جانتے۔(شرح حدیث النزول ص32)
عبارتِ مذکورہ بالا کا جس نے بھی حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف انتساب کیا ہے،اُس نے جھوٹ بولا ہے۔
2۔بجنوری نے کہا:’’فتح الباری 7؍139 میں بھی حدیث نزول وصلوٰۃ بیت اللحم نسائی ،بزار وطبرانی کے حوالے سے ذکر ہوئی ہے،مگرکچھ ابہام کے ساتھ ،اور غالباً اسی سے علامہ ابن القیم نے غلط فائدہ اٹھایا ہے،واللہ اعلم۔‘‘ (ملفوظات ص 183)
عرض ہے کہ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ 751ھ میں فوت ہوئے اور حافظ ابن حجر العسقلانی 773 میں پیدا ہوئے تھے تو اپنی وفات کے بعد پیدا ہونے والے کی کتاب فتح الباری سے کس طرح ابن القیم نے غلط فائدہ اُٹھایا تھا؟
بجنوری نے تو جھوٹ کا’’ لک‘‘ توڑدیا ہے۔
تنبیہ:
حوالۂ مذکورہ کے سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں حدیث سے فائدہ اُٹھانا مراد نہیں بلکہ فتح الباری سے’’غلط فائدہ‘‘ اُٹھانا مراد ہے۔
3۔بجنوری نے امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں کہا:’’ زیادہ تحقیقی بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کو پہلی بار بخاراسے مسئلہ حرمت رضاع بلبن شاۃ کی وجہ سے نکلنا پڑا۔۔۔‘‘ (ملفوظات کشمیری ص 156)
بجنوری کی یہ بات بالکل جھوٹ ہے اور یہ و ہ جھوٹا قصہ ہے جسے بعض بے سند حنفیوں نے گھڑ کر اپنے مقلدین میں مشہور کردیا تھا۔عبدالحئی لکھنوی تقلیدی نے بھی اس قصے کا بعید از صحت ہونا تسلیم کیا۔دیکھئے الفوائد البہیہ(ص29،ترجمہ احمد بن حفص البخاری)
ہم پوچھتے ہیں کہ اس بے سند جھوٹے قصے کی’’صحیح متصل‘‘سند کہاں ہے؟
اس جھوٹے قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ بجنوری وغیرہ کے نزدیک امام بخاری رحمہ اللہ اس بات کے قائل تھے کہ اگربچہ اور بچی کسی ایک گائے کا دودھ پی لیں تو رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔!!!حالانکہ ایسی باطل بات کا قائل کوئی صاحب علم نہیں،کجا یہ کہ امیر المومنین فی الحدیث