کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 509
ان کے اموال کو اس کام میں خرچ کر ڈالتے ہیں ،اس کے حرام ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے، کیونکہ یہ یتیموں کا مال زور زبردستی اور جو رو ظم کے ساتھ کھا جانے کے مترادف ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: (انَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارً‌ا ) ’’جو لوگ یتیموں کا مال ظلماً کھا جاتے ہیں بے شک وہ لوگ اپنی پیٹ میں جہنم کی آگ کھا رہے ہیں۔‘‘ (النساء:10) یہاں تک کہ وہ متاخرین بھی جو بہت سی بدعات کو حسنہ قرار دیئے ہوئے ہیں اس فعل کو " بدعت ضالہ" کہتے ہیں کیونکہ اس میں سنت کی مخالفت پائی جاتی ہے۔ اس لیے کہ سنت یہ ہے کہ میت کے گھروالوں کے لیے ان کے پڑوسی لوگ کھانا تیار کریں ، اور کھلائیں جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا) جعفر ( جو جنگ موتہ میں شہید ہوگئے تھے ) کی اولاد اور گھروالوں کے لیے کھانا تیار کرو۔( عام کتب حدث) دوسری بات یہ ہے کہ ایسا کرنا اسراف وفضول خرچی ہے ، تیسری بات یہ ہے کہ اس میں باطل وناحق ( طریقے سے) لوگوں کا مال کھالیا جاتا ہے کیونکہ میت کے ورثاء کبھی کبھی فقراء ہوتے ہیں یا یتیم بچے ہوتے ہیں، کبھی کبھی یہ لوگ قرض لے کر کھلانے پلانے والا یہ قبیح وشنیع کام دوسرے لوگوں کے ڈر سے کرتے ہیں۔‘‘( بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم ص 675۔676) خلاصہ یہ کہ مسئولہ بالا عمل جائز نہیں بلکہ بدعت سیئہ ہے ۔ تنبیہ : فتاویٰ سمر قندی کی ایک روایت میں آیا ہے کہ (سیدنا ) عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے مومنو! قرآن کو مردوں کی نجات کا وسیلہ بناؤ تو حلقہ بنالو اور کہو : اے اللہ ! اس میت کو قرآن مجید کی حرمت سے بخش دے۔ الخ اس روایت کی سند مردود ہے۔اس میں عباس بن سفیان راوی نامعلوم ہے۔ اگر اس سے کتاب الثقات لابن حبان والا مجہول الحال راوی مراد لیا جائے تو ابو اللیث سمر قندی کی اس سے ملاقات ثابت نہیں ہے اور اگر یہ کوئی دوسرا مجہول شخص ہے تو اس کی اسماعیل بن ابراہیم