کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 501
حافظ ابن حجر نے کمال تحقیق کرتے ہوئے فرمایا ہے: وعلي هذا فهو مرسل او معضل "اس لحاظ سے یہ روایت مرسل یا معضل ( منقطع ) ہے ۔( نتائج الافکار 3؍ 267) حافظ ابن حجر کے اس کلام پر شیخ سلیم بن عید الہلالی السلفی لکھتے ہیں : "وهذا كلام في غاية التحقيق ‘ وقد خفي هذا علي شيخنا الالباني رحمه اللّٰه في الصحيحه (٢؍١٣-) فجعل رواية زهير بن معاوية هذه عن صفوان او ابن صفوان عن جابر وهذا خطا منه۔ رحمه الله۔ فان صفوان لم يروه عن جابر وانما منتهاه عن صفوان نفسه ۔۔۔ " اور یہ کلام تحقیق کے انتہائی اعلی مقام پر ہے اور یہ ہمارے استاذ شیخ الالبانی رحمہ اللہ پر پوشیدہ رہ گیا۔انھوں نے اپنی کتاب الصحیحہ میں زہیر بن معاویہ کی روایت کو صفوان یا ابن صفوان عن جابر سمجھ لیا اور یہ ان کی غلطی ہے ۔ رحمہ اللہ، بے شک صفوان نے یہ روایت جابر (رضی اللہ عنہ )سے بیان نہیں کی، یہ تو ان کا اپنا قول ہے ( عجالۃ الراغب المتمنی 2؍769) یا مرسل ہے ۔ خلاصۃ التحقیق : یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: " تُوُفِّيَ رَجُلٌ فَأُتِيَ مِنْ جَوَانِبِ قَبْرِهِ، فَجَعَلَتْ سُورَةٌ مِنَ الْقُرْآنِ تُجَادِلُ عَنْهُ حَتَّى مَنَعَتْهُ " ایک آدمی کی قبر میں قرآن کی ایک سورت ( تیس آیتوں والی) نے آدمی کا دفاع کیا حتی کہ وہ شخص عذاب سے بچ گیا۔( مرہ تابعی کہتے ہیں کہ ) میں نے اور مسروق (تابعی ) نے غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سورۃ الملک ہے ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی 7؍41 وسندہ حسن ) اس روایت کی دوسری سندوں کے لیے دیکھئے، مستدرک الحاکم (2؍498) وغیر ہ ،ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : سُورَةُ تَبَارَكَ هِيَ الْمَانِعَةُ، تَمْنَعُ بِإِذْنِ اللّٰه مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ۔۔۔الخ سورۃ الملک ،اللہ کے اذن سے ، عذاب قبر سے بچاتی ہے ۔ ( اثبات عذاب القبر للبیہقی ح 145 بتحقیقی وسندہ حسن)