کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 50
ہو،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ"
’’اور جب پہنچا موسیٰ ہمارے وقت پر،اور کلام کیا اس سے اس کے رب نے۔‘‘
(الاعراف:143 ،ترجمہ عبدالقادر دہلوی ص202)
اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ اللہ کے کلام کو حرف اور صوت ماننا جسمیت ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ اس ایمان کا اعلان اور اظہار ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔مخلوق نہیں ہے اور یہی قرآن من وعن اپنے تمام حروف کےساتھ اللہ تعالیٰ نے روح الامین سیدنا جبریل علیہ السلام کے ذریعے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا،یہ اللہ کی صفتِ کلام اور صفتِ علم ہےاور صفات باری تعالیٰ مخلوق نہیں ہیں بلکہ صفت الرب کو مخلوق سمجھنے والا کافر ہے۔
صفت کلام کے بارے میں سلف صالحین کے عقیدے اور منہج کے بعض حوالے اس مضمون میں سابقہ صفحات پر گزر چکے ہیں۔
احمد رضا بجنوری دیوبندی(مجروح) نے انور شاہ کشمیری دیوبندی سے نقل کیا:
’’حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا:’’عرش قدیم ہے۔‘‘(ملفوظات کشمیری ص203)
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب یہ قول کئی وجہ سے باطل اور مردود ہے:
اول:یہ قول حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کسی کتاب میں لکھا ہوا نہیں ہے۔
دوم:شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: " فإن العرش مخلوق أيضاً "
۔۔۔بے شک عرش بھی مخلوق ہے۔(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج18 ص214)
سوم:انور شاہ کشمیری دیوبندی نے اس کی کوئی صحیح دلیل یا حوالہ پیش نہیں کیا۔
چہارم:احمد رضا بجنوری بذات خود مجروح تھا،اس کی چار دلیلیں پیش خدمت ہیں:
1۔بجنوری سے نقل کرتے ہوئے کہا:ابن تیمیہ نے"کنزولی ھذا"سے تشریح کرکے بدعت قائم کردی ہے۔‘‘
(ملفوظات ص243)
حالانکہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے"کنزولی ھذا"کے الفاظ قطعاً نہیں کہے بلکہ انھوں نے فرمایا:
"وكذلك نعلم معنى النزول ولا نعلم كيفيته " اور اسی طرح ہم نزول