کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 49
(قوالی) کی محفلوں میں حاضر ہوتے،رقص کرتے(ناچتے) اور وجد میں آ تے تھے۔ (دیکھئے تاریخ الاسلام للذہبی ج48 ص419 وفیات 660ھ) رقص وسماع کی ممانعت پر حافظ شیخ ابو محمدمحمود بن ابی القاسم بن بدر ان الدشتی الحنفی رحمہ اللہ (متوفی 566ھ) نے ایک عظیم الشان کتاب: "النهي عن الرقص والسماع" لکھی ہے جو 915 صفحات میں دارالسنۃ(الریاض،سعودی عرب) سے دو جلدوں میں چھپ چکی ہے۔اس کتاب میں شیخ ابن بدران نے فرمایا:یہ گروہ جو سمجھتا ہے کہ رقص،گانے سننا اور بانسریاں بجانا اچھا کام ہے،یہ لوگ اللہ کی لعنت کے مستحق ہیں۔الخ(النہی عن الرقص والسماع ج1 ص 441) تنبیہ: کوثری جس علم کلام کی باتیں کرتا تھا،ایسے کلام کے بارے میں امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نےفرمایا: "لأن يبتلى العبد بكل ما نهى اللّٰه عنه ما عدا الشرك خير له من الكلام "ولقد اطلعت من أصحاب الكلام على شيء ما ظننت أن مسلماً يقول ذلك" ’’اگر آدمی شرک کے علاوہ ہر ممنوع کام میں مبتلا ہوجائے،وہ اس کے لیے علم کلام سے بہتر ہے اور میں نے ان اصحاب کلام کی ایسی چیزیں دیکھی ہیں،میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ایسی بات کہہ سکتا ہے۔‘‘ (آداب الشافعی ومناقبہ لابن ابی حاتم ص137،وسندہ صحیح) انور شاہ کشمیری دیوبندی کاکہنا ہے کہ’’جس نے خدا کو متکلم بالصوت والحروف کہا اُس نے خدا کے لیے جسمیت کی جو کفر ہے۔‘‘ کئی وجہ سے مردود اور باطل ہے: اول:حروف اور صوت کا ذکر احادیث صحیحہ اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم و غیرہ سے ثابت ہے۔(کماتقدم) کیا یہ جسمیت کے قائل تھے؟! دوم:امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ حروف واصوات کے قائل تھے ۔کیا یہ مجسمہ میں سے تھے؟ سوم:سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور کے پاس اللہ تعالیٰ کا کلام سنا تھا یا نہیں؟اگر سنا تھا تو تم اپنے باطل دعویٰ اور اصول کی رُو سے جسمیت کے قائل ہو۔اگر نہیں سنا تھا تو قرآن کے منکر