کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 489
روایت کیا ہے۔
(السنن الکبریٰ للنسائی ج 5ص 18،19 حدیث 8035 کتاب فضائل القرآن باب 28،الامر بتعلم القرآن والعمل بہ)
اب راویوں کا مختصر تعارف پڑھ لیں:
عبداللہ بن یزید المکی المقرئ کتب ستہ کے بنیادی راوی اور بالاتفاق ثقہ ( یعنی قابل اعتماد ) تھے۔ حافظ ابن حجر نے فرمایا :" ثقه فاضل ،اقراالقرآن نيفا وسبعين سنة مات سنة ثلاث عشرة وقد قارب المائة وهو من كبار شيوخ البخاري "
و ہ ثقہ فاضل تھے۔ انھوں نے ستر سال سے کچھ زیادہ (لوگوں کو) قرآن پڑھایا۔آپ 213ھ میں تقریبا سوسال کی عمر میں فوت ہوئے۔آپ امام بخاری کے بڑے اساتذہ میں سے تھے۔( تقریب التہذیب مع التعقیب ص 287 ت3715)
2) قباث بن زرین "صدوق مقري " یعنی سچے قاری قرآن تھے۔ ( تقریب التہذیب ص 422ت 5508)
انھیں ابن حبان نے ثقہ ،ابو حاتم الرازی نے " لاباس بحديثه "اور احمد بن حنبل نے "لاباس به" قراردیا ہے۔ ( تہذیب الکمال ، ج 15ص 208)
3)علی بن رباح اللخمی ،صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی "ثقہ " تھے ۔ ( التقریب ص271)
امام بخاری نے الادب المفرد اور خلق افعال العباد میں ان سے روایت لی ہے۔
عقبہ بن عامر مشہور ( جلیل القدر )صحابی اور " فقیہ فاضل " تھے۔ ( التقریب :4641)
قباث کی وجہ سے یہ سند حسن لذاتہ ہے ۔ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے کہا:
" هذا اسناد صحيح " یعنی یہ سند صحیح ہے ( سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ 7؍847 ح3285)
یہ سلسلہ ٔ صحیحہ کی آخری جلد ہے جو تین جلدوں میں شائع ہوئی ہے اور حدیث نمبر 4035 پر ختم ہوگئی ہے ،اس کے آخر میں لکھا ہوا ہے کہ
" هذا آخر ماحققه الشيخ من هذه "السلسلة " المباركة ان شاء اللّٰه وكان ذلك او آخر شهر جمادي الاولي عام ١٤٢۰-ه" ( الصحيحه ج ٧ ص ١٧٤١)