کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 487
کی " عمل الیوم اللیلۃ" کے حوالے سے نقل کی ہے ،استخارہ کرنا مستحب ہے یا واجب ؟
ہمارے فاضل مولوی ہیں ، وہ کسی کو ایک ماہ تک استخارہ کرنے کا کہہ رہے تھے ۔ میں نے ا نھیں یہ حدیث بتائی مگر پھر بھی وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے ۔دلیل مانگنے پر نہ دی ، مجھے اب ایک صحابی کا اثر یاد آرہا ہے مگر حوالہ یاد نہیں جس میں صحابی تین دن تک استخارہ کا کہتے ہیں ۔( محمد جعفر ابو عثمان )
جواب:استخارے کے لیے دنوں کی شرط نہیں ہے ۔جب بھی مباح امور میں سے کوئی مشکل اور پیچیدہ مسئلہ ہوتو استخارہ کرلیں جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔ ( دیکھئے صحیح بخاری :1162،6382)
استخارہ کرنا مستحب ہے واجب نہیں کیونکہ " من غير فريضة"کے الفاظ بھی عدم وجوب پر دلالت کرتے ہیں۔( دیکھئے فتح الباری ج 11ص 185 تحت ح6382)
امام بخاری نے اس حدیث (۱۱۶۲)پر ’’باب ما جاءفی التطوع مثنی مثنی ‘‘ باندھا ہے۔
یعنی امام بخاری بھی اس حدیث کو تطوع ( نفل) سے متعلق سمجھتے ہیں ۔ابن السنی کی جس روایت کا حوالہ حافظ ابن القیم نے اذکار مسنونہ میں دیا ہے وہ روایت عمل الیوم واللیلۃ میں" عبيداللّٰه بن الحميري :ثنا ابراهيم بن البراء بن النضر بن انس ابن مالك عن ابيه عن جده " کی سند سے موجود ہے ۔
اس کی سند سخت ضعیف ہے ۔
النضر بن حفص بن النضر بن انس بن مالک غیر معروف ہے۔
دیکھئے لسان المیزان (6؍191ت 8802، دوسرا نسخہ 7؍192 ت 8877)
ابراہیم بن العلاء او ر عبیداللہ بن الحمیری بھی غیر معروف ہیں ۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں " لكن سنده واه جدا " لیکن اس کی سند بہت زیادہ کمزور ہے۔ ( فتح الباری ج 11 ص187)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الکلم الطیب (ص؍71 ح116) میں "ويذكر