کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 477
شرعی حیثیت تحریر فرمائیں ۔ الجواب: "اللهم اغفرلي وارحمني واهدني وعافني وارزقني " والی دعا کی سند حبیب بن ابی ثابت کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے تاہم برادر محترم مولانا غلام مصطفی ظہیر کی توجہ دلانے پر اس کا شاہد مل گیا۔یہی دعا " من وعن " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز میں پڑھنے کاحکم دیا ۔ (صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء باب فضل التھلیل والتسبیح والدعاءص 2697) اگر چہ اس میں سجدوں کے درمیان کی صراحت نہیں ہے مگر نماز کے عموم میں سجدوں کا درمیان بھی شامل ہے، لہذا حبیب بن ابی ثابت والی روایت اس شاہد کی وجہ سے حسن ہے ۔ ( شہادت ،اگست 2001) سوال: (نماز میں) مابین السجود کی مشہور دعا"اللهم اغفرلي وارحمني واهدني وعافني وارزقني " کو القول المقبول کےمحقق جناب عبدالرؤف صاحب نے ضعیف قراردیا ہے ۔ کیا واقعی روایت ہذا ضعیف ہے؟ ( تنویر سلفی ۔ضلع ایبٹ آباد ) الجواب: اس روایت کی سند حبیب بن ابی ثابت کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ لیکن صحیح مسلم ( کتاب الذکر والدعاء ۔۔ ح :2698) میں ہے : كَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَسْلَمَ، عَلَّمَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ أَمَرَهُ أَنْ يَدْعُوَ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ: (اللهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي وَارْزُقْنِي) جب کوئی آدمی مسلمان ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نماز سکھاتے تھے پھر حکم دیتے کہ یہ کلمات پڑھے :( اللهم اغفرلي وارحمني واهدني وعافني وارزقني ) اس عمومی مفہوم والے شاہد کی وجہ سے حبیب والی روایت حسن ہے اگرچہ بہتر یہی ہے کہ "رب اغفرلي رب اغفرلي " والی روا يت پڑھے جو کہ بلحاظ سند صحیح ہے۔ ( دیکھئے سنن ابی داؤد:874 وسندہ صحیح ) ( شہادت ،اکتوبر 2001)