کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 472
الافکار لابن حجر 2؍301 ،حلیہ الالیاء لابی نعیم الاصبہانی 6؍301۔302)
اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے۔ سلام الطویل المدائنی : متروک ہے ۔(التقریب:2702)
امام بخاری نے فرمایا :" ترکوہ " ( کتاب الضعفاء مع تحقیقی :تحفۃ الاقویاء ،ص 51 ت:155)
حاکم نیشا پوری نے کہا: اس نے حمید الطویل ،ابوعمر وبن العلاء اور ثور بن یزید سے موضوع احادیث بیان کی ہیں ۔(المدخل الی الصحیح ص 144 ت:73)
حافظ ہیثمی نے کہا : " وقد اجمعوا علی ضعفہ" اوراس کے ضعیف ہونےپر اجماع ہے۔ (مجمع الزوائد ج1ص 212)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : "والحديث ضعيف جدا بسببه " اور (یہ) حدیث سلام الطویل کے سبب کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ ( نتائج الافکار 2؍301)
اس سند کا دوسرا راوی زیدالعمی : ضعیف ہے ۔( تقریب التہذیب :2131)
اسے جمہور( محدثین ) نے ضعیف قراردیا ہے ۔( مجمع الزوائد 10؍110؍260)
حافظ ہیثمی لکھتے ہیں :" وبقية رجال احد اسنادي الطبراني ثقات وفي بعضهم خلاف" اور طبرانی کی دو سندوں میں سے ایک سند کے بقیہ راوی ثقہ ہیں اور ان میں سے بعض میں اختلاف ہے۔ (مجمع الزوائد 10؍110)
طبرانی والی دوسری سند تو کہیں نہیں ملی ،غالبا حافظ ہیثمی کا اشارہ البراز کی "حدثنا الحارث ابن الخضر العطار ّثنا عثمان بن فرقد عن زيد العمي عن معاويه بن قرة عن انس بن مالك رضي اللّٰه عنه ۔۔۔الخ " والی سند کی طرف ہے ۔
( دیکھئے، کشف الاستار 4؍22ح 3100)
عرض ہے کہ الحارث بن الخضر العطار کے حالات کسی کتاب میں نہیں ملے ۔اور یہ عین ممکن ہے کہ اس نے عثمان بن فرقد اور زید العمی کے درمیان سلام الطویل المدائنی کے واسطے کو گرا دیا ہو۔اگر نہ بھی گرایا ہوتو یہ سند اس کے مجہول ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
دوسری روایت : کثیر بن سلیم عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی سند سے مروی ہے :